يوم ظہور پرنور خاتون جنت سيدہ النسا (حصّہ ہشتم)
حضرت فاطمہ زہرا(س) کي وصيتيں
حضرت فاطمہ زہرا(س) نے خواتين کے ليے پردے کي اہميت کو اس وقت بھي ظاہر کيا جب آپ دنيا سے رخصت ہونے والي تھيں . اس طرح کہ آپ ايک دن غير معمولي فکر مند نظر آئيں . آپ کي چچي(جعفر طيار(رض) کي بيوہ) اسماء بنتِ عميس نے سبب دريافت کيا تو آپ نے فرمايا کہ مجھے جنازہ کے اٹھانے کا يہ دستور اچھا نہيں معلوم ہوتا کہ عورت کي ميّت کو بھي تختہ پر اٹھايا جاتا ہے جس سے اس کا قدوقامت نظر اتا ہے . اسما(رض) نے کہا کہ ميں نے ملک حبشہ ميں ايک طريقہ جنازہ اٹھانے کا ديکھا ہے وہ غالباً آپ کو پسند ہو. اسکے بعد انھوں نے تابوت کي ايک شکل بنا کر دکھائي اس پر سيّدہ عالم بہت خوش ہوئيں
اور پيغمبر کے بعد صرف ايک موقع ايسا تھا کہ اپ کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئي چنانچہ آپ نے وصيّت فرمائي کہ آپ کو اسي طرح کے تابوت ميں اٹھايا جائے . مورخين تصريح کرتے ہيں کہ سب سے پہلي لاش جو تابوت ميں اٹھي ہے وہ حضرت فاطمہ زہرا کي تھي۔ ا سکے علاوہ آپ نے يہ وصيت بھي فرمائي تھي کہ آپ کا جنازہ شب کي تاريکي ميں اٹھايا جائے اور ان لوگوں کو اطلاع نہ دي جائے جن کے طرزعمل نے ميرے دل ميں زخم پيدا کر دئے ہيں ۔سيدہ ان لوگوں سے انتہائي ناراضگي کے عالم ميں اس دنيا سے رخصت ہوئيں۔
شہادت
سيدہ عالم نے اپنے والد بزرگوار رسولِ خدا کي وفات کے 3 مہينے بعد تيسري جمادي الثاني سن ہجري قمري ميں وفات پائي . آپ کي وصيّت کے مطابق آپ کا جنازہ رات کو اٹھايا گيا .حضرت علي عليہ السّلام نے تجہيز و تکفين کا انتظام کيا . صرف بني ہاشم اور سليمان فارسي(رض)، مقداد(رض) و عمار(رض) جيسے مخلص و وفادار اصحاب کے ساتھ نماز جنازہ پڑھ کر خاموشي کے ساتھ دفن کر ديا . آپ کے دفن کي اطلاع بھي عام طور پر سب لوگوں کو نہيں ہوئي، جس کي بنا پر يہ اختلاف رہ گيا کہ اپ جنت البقيع ميں دفن ہيں يا اپنے ہي مکان ميں جو بعد ميں مسجد رسول کا جزو بن گيا۔ جنت البقيع ميں جو آپ کا روضہ تھا وہ بھي باقي نہيں رہا۔ اس مبارک روضہ کو 8 شوال سن ھجري قمري ميں ابن سعود نے دوسرے مقابر اہليبيت عليہ السّلام کے ساتھ منہدم کرا ديا( جاري ہے )