رمضان کی فضیلت حدیث میں (دوسرا حصہ)
جو آدمی اس مہینے میں اپنی بخشش نہ کرا سکے، گناہ معاف نہ کراسکے، جنت حاصل نہ کر سکے اور جہنم سے رہائی نہ پا سکے وہ بڑا بدبخت انسان ہے، اس نے رحمتوں اور برکتوں کے مہینے کو پایا ، اسے نزول قرآن، قبولیت دعا کا مہینہ ملا، صاف میدان ، ہموار راستہ ملا، گناہوں کی بخشش کا مہینہ ملا اور پھر بھی رب کی رضا حاصل نہ کر سکا۔ اس کی مثال تو اس آدمی کی طرح ہے جو پیاس سے تڑپ رہا ہو، حلق خشک ہو رہا ہو، ہونٹ سوکھ جائیں، قریب میٹھے پانی کا چشمہ ہووہ پانی نہ پیے بلکہ پیاس سے تڑپ تڑپ کر ،ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ہلاک ہو جائے تو اس کی ہلاکت میں کسی اور کا نہیں بلکہ اس کا اپنا قصور ہے۔
حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ ایک بار آپﷺ خطبہ دینے کے لیے تشریف لائے،پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو آمین کہا ، دوسری اور تیسری سیڑھی پر قدم رکھا توآمین کہا ، پھر فرمایا: میرے پاس جبریل آئے تھے ،جیسے میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو اس نے کہا :اے محمد! آپ کی امت میں سے وہ آدمی ہلاک ہو جائے جو رمضان کا مہینہ پائے اور اپنی بخشش نہ کراسکے میں نے آمین کہا،پھر اس نے کہا وہ آدمی بھی ہلاک ہو جائے جو اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور اپنی نجات کا سامان نہ کرسکے میں نے بھی آمین کہا، جبریل نے کہا وہ آدمی بھی ہلاک ہو جائے جس کے سامنے آپﷺ نام لیا جائے اور وہ آپﷺ پر درود نہ پڑھے میں نے آمین کہا۔(مستدرک حاکم) اس آدمی کی ہلاکت میں کیا شک وشبہ رہ جاتا ہے جس کے بارے میں بد دعا فرشتوں کے سردار کریں اور آمین انبیا کے سردار حضورﷺ کہیں۔
لہٰذا ’’رمضان‘‘کی قدر کریں، اسے غفلت میں نہ گزاریں، اس میں اپنی بخشش کا سامان کریں۔ اسے کھانے پینے کا مہینہ نہ بنائیں بلکہ عبادت،تلاوت اورسخاوت کا مہینہ بنائیں،اسے رحمت سمجھیں، راحت پرست نہ بنیں، ورنہ رمضان مشکل محسوس ہو گا ۔جیسے شاعر نے کہا ہے :
طبع آزاد پہ قیدرمضان بھاری ہے
تمہیں کہہ دو یہی آئین وفاداری ہے۔
آپﷺ اس ماہ کی قدر کرتے، اسے عبادت ،تلاوت وسخاوت میں گزارتے، اعتکاف کرتے،راتوں کا قیام کرتے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں: آپ ﷺ لوگوں کو فائدہ پہنچانے میں سب سے زیادہ فیاض تھے ،رمضان میں آپﷺ کی فیاضی بڑھ جاتی تھی، اس ماہ کی ہر رات جبریل امین آپﷺ سے ملتے، آپ انہیں قرآن سناتے، جب جبریل ملتے تو آپﷺ کی فیاضی و سخاوت تیز چلنے والی ہوا سے زیادہ ہوجاتی۔ بخاری ومسلم۔آپ سب سے زیادہ حسین، متقی، عبادت گزار، سخی تھے۔ لیکن رمضان کی عظمت کی وجہ سے، آپ کی تلاوت ، عبادت، سخاوت اورخدمت میں اضافہ ہو جاتا تھا، حتیٰ کہ رمضان کے آخری عشرے میں دنیا سے الگ تھلگ ہو کر دنیاوی مصروفیات ترک کر کے مسجد میں بیٹھ جاتے، اعتکاف کرتے۔ اس مہینے میں امت محمدیہ کو جو نعمتیں ملیں ہیں وہ کسی اور کو نہیں ملیں۔آپﷺ نے فرمایا: رمضان کے مہینے میں میری امت کو پانچ نعمتیں دی گئیں جو کہ مجھ سے پہلے کسی اور نبی کو نہیں دی گئیں۔
۱۔ رمضان کی پہلی رات اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نظر رحمت سے دیکھتے ہیں، اللہ جس کو نظر رحمت سے دیکھ لے اسے عذاب نہیں دیتا۔
۲۔اللہ کے نزدیک روزہ دار کے منہ کی خوشبو کستوری کی خوشبو سے زیادہ بہتر ہے۔
۳۔فرشتے دن رات روزے داروں کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں۔
۴۔ اللہ تعالیٰ جنت کو بندوں کی خاطر بننے سنورنے کا حکم دیتے ہیں ۔
۵۔رمضان کی آخری رات اہل ایمان کی بخشش کر دی جاتی ہے۔
ان لمحات کی قدرکریں نہ جانے پھر یہ گھڑیاں نصیب ہوں یا نہ ہوں، زندگی ہو یا نہ ہو، موقع ملے یا نہ ملے۔(ختم شد)
متعلقہ تحریریں:
قرآن اور ماہ رمضان ( حصّہ دوّم )
ماہ رمضان اور اس کي خصوصيات