• صارفین کی تعداد :
  • 4968
  • 7/5/2015
  • تاريخ :

رمضان کا مہینہ: حاصل کیا کرنا ہے؟ (تیسرا حصہ)

رمضان کا مہینہ: حاصل کیا کرنا ہے؟ (تیسرا حصہ)

    غفلت کی دھول اور سرکشی کی کالک فطرت کے حسن کو نری غلاظت میں بدل دیتی ہے۔ انسان پہلے پہل خیر و شر کی تمیز کھوتا ہے اور پھر معاشرے میں ہر شر خیر اور ہر خیر شر بن جاتا ہے۔ فطرت میں پیدا ہوجانے والی اس کجی کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں پیغمبر بھیجے، کتابیں اتاریں، بھولا ہوا سبق یاد دلایا اور آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اتارا قرآن نہ صرف تزکیہ کے نصب العین کو انسانوں کے سامنے رکھتا ہے بلکہ ایمان و اخلاق اور فکر و عمل کی آلائشوں کی بھی نشان دہی کرتا ہے۔
    قرآن کی اس ہدایت کی روشنی میں ہر بندۂ مومن کی زندگی کا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو فطرت میں موجود اور قرآن میں بیان کردہ ان آلائشوں سے بچائے۔ انسان جیسے ہی یہ عمل شروع کرتا ہے۔ اس کا براہِ راست نتیجہ اس کے اخلاقی وجود پر مرتب ہوتا ہے۔ شرک و الحاد کی گندگی کو دھونے کے بعد انسان اپنے جیسے انسانوں کو خدا بناتا ہے نہ خواہش نفس کو اپنا معبود ٹھہراتا ہے۔
    آخرت کی کامیابی کا نصب العین تقاضا کرتا ہے کہ انسان کی جان، مال، وقت اور صلاحیت کا ایک حصہ لازماً ذاتی مفادات سے بلند ہو کر صرف کیا جائے۔ایسے پاکیزہ لوگوں کے معاشرے میں نہ طاقتور کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں اور نہ اہل ثروت غربا سے بے نیاز اپنی خرمستیوں میں مگن رہتے ہیں۔ انسان اپنے ابنائے نوع کے ساتھ اس یقین کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں کہ کل روزِ قیامت ہر معاملہ رب العالمین کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ وہ عدالت جہاں فیصلے مادی نہیں بلکہ اخلاقی قانون کی بنیاد پر ہوں گے۔ چنانچہ دھوکہ، فریب، بددیانتی، خیانت، جھوٹ اور معاشرے میں پائی جانے والی ان جیسی تمام اخلاقی گندگیاں اوصاف حمیدہ کے لیے جگہ چھوڑ دیتی ہیں۔یوں دھرتی نور ایمان سے چمک اٹھتی ہے۔
یاد رکھیے! کسی واضح ہدف کے بغیر ہم روزمرہ زندگی کے بس چھوٹے موٹے کام ہی کر رہے ہوتے ہیں۔
    فلاح آخرت اور اس کے لیے پاکیزگی کے حصول پر انسان کو متحرک کرنے والی سب سے بڑی چیز خدا کے حضور پیشی کا خوف، اس کی پکڑ کا اندیشہ، اس کے عذاب کا ڈر اور اس کا تقویٰ ہے۔ یہ تقویٰ ہی وہ چیز ہے جو روزوں کی فرضیت کا اصل مقصود ہے۔ارشاد ہوا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمْ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ. (البقرہ2:183 )
 ایمان والو، تم پر روزے فرض کئے گئے تھے، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاو۔
یہ تقویٰ کیسے پیدا ہوتا ہے؟ اس طرح کہ رمضان میں قرآن کی بار بار تلاوت انسان کو جہنم کے عذاب اور خدا کی پکڑ سے بے خوف نہیں رہنے دیتی۔ دوسری طرف روزے میں کھانے پینے سے رکنا انسان کو نہ صرف پرہیز گاری کے آداب سکھاتا ہے بلکہ اسے اس مضبوط قوت ارادی سے آگاہ کرتا ہے جسے استعمال کرکے وہ ہر اخلاقی ناپاکی سے بچ سکتا ہے۔
    سو اب جب کہ رمضان آچکا ہے، آئیے۔ ۔ ۔ رمضان کے صحیح مصرف کا عزم کرتے ہیں۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں قرآن صرف ثواب کے لیے پڑھا جاتا ہے، آئیے۔ ۔ ۔ قرآن کو ہدایت کے لیے پڑھنے کا عزم کرتے ہیں۔یہ عزم کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھیں گے۔ یہ جاننے کے لیے پڑھیں گے کہ قرآن جس دن کی مصیبت سے خبردار کرنے آیا ہے وہ کون سا دن ہے۔ فکر و عمل اور اخلاق و عقیدہ کی ان گندگیوں کو جاننے کے لیے پڑھیں گے جن سے بچے بغیر جہنم کی آگ سے نہیں بچا جاسکتا ۔
    رمضان ثواب کا مہینہ ہے۔ آئیے۔ ۔ ۔ اسے ہدایت کا مہینہ بنادیں۔ یہ بھوک پیاس سے رکنے کا مہینہ ہے۔ آئیے۔ ۔ ۔ اسے تقویٰ حاصل کرنے کامہینہ بنادیں۔ یہ قمری تقویم کا نواں مہینہ ہے۔ آئیے ۔ ۔ ۔ اسے ایمانی تقویم کا پہلا مہینہ بنادیں۔
(مصنف: ریحان احمد یوسفی) (ختم شد)


متعلقہ تحریریں:

قرآن اور ماہ رمضان ( حصّہ دوّم )

ماہ رمضان اور اس کي خصوصيات