آيہ بلغ کے سلسلہ ميں ايک نئي تحقيق
اگر ہم مذکورہ آيت کي شان نزول کے بارے ميں بيان ہونے والي احاديث اور واقعہ غدير سے متعلق تمام روايات سے قطع نظر کريں اور صرف اور صرف خود آيہ بلغ اور اس کے بعد والي آيتوں پر غور کريں تو ان آيات سے امامت اور پيغمبر اکرم (ص) کي خلافت کا مسئلہ واضح و روشن ہوجائے گا-
کيونکہ مذکورہ آيت ميں بيان ہونے والے مختلف الفاظ اس بات کي طرف اشارہ کرتے ہيں کہ اس مسئلہ کي تين اہم خصوصيت ہيں:
1- اسلامي نقطہ نظر سے اس مسئلہ کي ايک خاص اہميت ہے ، کيونکہ پيغمبر اکرم (ص) کو حکم ديا گيا ہے کہ اس پيغام کو پہنچادو، اور اگر اس کام کو انجام نہ ديا تو گويا اپنے پروردگار کي رسالت کو نہيں پہنچايا! دوسرے الفاظ ميں يوں کہيں کہ ولايت کا مسئلہ نبوت کي طرح تھا ، کہ اگر اس کو انجام نہ ديا تو پيغمبر اکرم کي رسالت ناتمام رہ جاتي ہے:<وَاظ•ِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ>
واضح رہے کہ اس سے مراد يہ نہيں ہے کہ يہ خدا کا کوئي معمولي حکم تھا، اور اگرخدا کے کسي حکم کونہ پہنچايا جائے تو رسالت خطرہ ميں پڑجاتي ہے، کيونکہ يہ بات بالکل واضح ہے اور اس کے بيان کرنے کي ضرورت نہيں ہے، حالانکہ آيت کا ظاہر يہ ہے کہ يہ مسئلہ ايک خاص اہميت کا حامل ہے جو رسالت و نبوت سے خاص ربط رکھتا ہے-
2- يہ مسئلہ اسلامي تعليمات جيسے نماز، روزہ، حج، جہاد اور زکوٰة وغيرہ سے متعلق نہيں تھا کيونکہ يہ آيت سورہ مائدہ کي ہے، اور ہم جانتے ہيں کہ يہ سورہ پيغمبر اکرم (ص) پر سب سے آخر ميں نازل ہوا ہے، (يا آخري سوروں ميں سے ہے) يعني پيغمبر اکرم (ص) کي عمر بابرکت کے آخري دنوں ميں يہ سورہ نازل ہوا ہے جس وقت اسلام کے تمام اہم ارکان بيان ہوچکے تھے-(3)
3- آيت کے الفاظ اس بات کو واضح کرتے ہيں کہ يہ مسئلہ ايک ايسا عظيم تھاجس کے مقابلہ ميں بعض لوگ سخت قدم اٹھانے والے تھے، يہاں تک کہ پيغمبر اکرم (ص) کي جان کو بھي خطرہ تھا، اسي وجہ سے خداوندعالم نے اپني خاص حمايت کا اعلان کرتے ہوئے فرمايا:< وَاللهُ يَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ> ”اور خداوندعالم تم کولوگوں کے (احتمالي) خطرے سے محفوظ رکھے گا“-
آيت کے آخر ميں اس بات کي تاکيد کي گئي ہے: ”خداوندعالم کافروں کي ہدايت نہيں فرماتا“< اظ•ِنَّ اللهَ لاَيَہْدِي الْقَوْمَ الْکَافِرِينَ >
آيت کا يہ حصہ خود اس بات کي عکاسي کرتا ہے کہ بعض مخالف آنحضرت (ص) کے خلاف کوئي منفي قدم اٹھانے والے تھے-
ہماري مذکورہ باتوں سے يہ بات اچھي طرح واضح ہوجاتي ہے کہ اس آيت کا مقصد پيغمبر اکرم (ص) کي جانشيني اور خلافت کے علاوہ اور کچھ نہيں تھا-
جي ہاں پيغمبر اکرم (ص) کي آخري عمر ميں صرف يہي چيز مورد بحث واقع ہوسکتي ہے نہ کہ اسلام کے دوسرے ارکان ، کيونکہ دوسرے ارکان تو اس وقت تک بيان ہوچکے تھے، صرف يہي مسئلہ رسالت کے ہم وزن ہوسکتا ہے، اور اسي مسئلہ پر بہت سي مخالفت ہوسکتي تھي اور اسي خلافت کے مسئلہ ميں پيغمبر اکرم (ص) کي جان کو خطرہ ہوسکتا تھا-
اگر مذکورہ آيت کے لئے ولايت، امامت اور خلافت کے علاوہ کوئي دوسري تفسير کي جائے تو وہ آيت سے ہم آہنگ نہ ہوگي-
آپ حضرات ان تمام مفسرين کي باتوں کو ديکھيں جنھوں نے اس مسئلہ کو چھوڑ کر دوسري تاويليں کي ہيں، ان کي تفسير آيت سے بےگانہ دکھائي ديتي ہيں، حقيقت تو يہ ہے کہ يہ لوگ آيت کي تفسير نہيں کرپائے ہيں-
متعلقہ تحریریں:
غدير کا واقعہ لافاني و جاوداني ھے
واقعہ غدير کا پيش خيمہ