بچوں کي تعليم و تربيت ايک بنيادي فريضہ!
انسان کو اللہ تعاليٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے‘ ان ميں سے ايک عظيم نعمت اولاد بھي ہے، نکاح کے بعد مرد وعورت ہرايک کو اولاد کي خواہش ہوتي ہے‘ اس کے لئے دعائيں مانگي جاتي ہيں‘ اللہ تعاليٰ جسے چاہتاہے، اسے اس نعمت سے نوازديتا ہے‘ کسي کو لڑکا ‘ کسي کو لڑکي اور کسي کو دونوں‘ جبکہ بعض کو اپني کسي حکمت کي بنأ پر اولاد نہيں ديتا-
جيساکہ قرآن کريم ميں ہے:
”يہب لمن يشاء اناثاً ويہب لمن يشاء الذکور‘ او يزوجہم ذکراناً واناثاً ويجعل من يشاء عقيماً“- (الشورٰي:49‘50)
ترجمہ:”جس کو چاہتاہے بيٹياں عطا فرماتاہے اور جس کو چاہتاہے بيٹے عطا فرماتاہے يا ان کو جمع کرديتاہے بيٹے بھي اور بيٹياں بھي اور جس کو چاہے بے اولاد رکھتاہے“-
اولاد کے متعلق شريعت نے ماں باپ پر کئي ذمہ دارياں عائد کي ہيں ‘ارشاد الٰہي ہے:
”يا ايہا الذين اٰمنوا قوا انفسکم واہليکم نارا”“ (التحريم:6)
ترجمہ:”اے ايمان والوں تم اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو (دوزخ کي) اس آگ سے سے بچاو“-
اس آيت ميں اسي کي طرف اللہ تعاليٰ نے توجہ دلائي اور بڑے پياربھرے انداز ميں انسان کو خطاب کيا: ”اے ايمان والو!“ يعني اللہ نے انسان کو اس رشتہ سے پکارا جو بندے اور اس کے رب کے درميان قائم ہے‘ اور وہ رشتہ ايماني ہے‘ پھر فرمايا کہ: ”تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کي آگ سے بچاو‘ ‘وہ کيسي آگ ہے‘ اس کي صفت بيان کي کہ” جس کا ايندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘ اور اس پر ايسے نگران فرشتے مقرر ہيں جو بڑے طاقتور اورسخت ہيں‘ اللہ کے حکم کي نافرماني نہيں کرتے جو حکم ملتا ہے‘ اسے وہ پورا کرتے ہيں-“اس آيت سے پتہ چلا کہ اخروي کاميابي کے حصول کے لئے محض اپني اصلاح کي فکر کرنا اور خود نيک عمل کرتے رہنا کافي نہيں ہے‘ کيونکہ اگريہي کافي ہوتا تو پھر اتنا فرمايا جاتا کہ اپنے آپ کو جہنم کي آگ سے بچاو ‘ليکن آگے ”واہليکم“ بھي فرمايا کہ: اپنے اہل وعيال کو بھي اس آگ سے بچاو-
ہمارے معاشرے ميں يہ بات عام ہوچکي ہے اور ہرآدمي يہ کہتا ہے کہ مجھے اپني قبر ميں جاناہے‘ ميري بيوي کو اپني قبر ميں جانا ہے‘ بچوں کو اپني قبر ميں جانا ہے‘ ان کو سمجھانے کے لئے کون دماغ خراشي کرتاپھرے‘ اپني فکر کرو‘ خود صحيح ہوجاو‘ يہ بہت اور کافي ہے‘ اور اس کے لئے اپنے تئيں بظاہر دينداري کا اہتمام بھي کيا جاتاہے کہ خود نماز‘ روزہ کا پابند‘ نوافل کا عادي اور اپنے طور پر منکرات سے بچنے والا‘ ليکن گھر کا ماحول اور اولاد کا طرزعمل گھر کے سربراہ سے بالکل مختلف ہوتا ہے‘ جس سے معلوم ہوا کہ گھر کے سربراہ نے اپني ذمہ داري مکمل طور پر نہيں نبھائي‘ جس کا لازمي نتيجہ ہے کہ والدين اور اولاد دونوں کي سمتيں مختلف ہيں‘ لہٰذا اس معاملہ پر توجہ دينے کي ضرورت ہے، لوگوں کا يہ کہنا کہ ہم نے کوشش تو بہت کي‘ مگر بچے نہيں مانتے،ہم کيا کريں؟ قرآن کريم نے ”نار“ (آگ) کا لفظ ذکر کرکے ايسے لوگوں کو لاجواب کرديا کہ ذرا سوچو: اگر بہت بڑي آگ دہک رہي ہو اور تمہارے بچے اس آگ ميں کودنا چا ہيں تو کيا ان کے اصرار اور ضد پر ان کو اس آگ ميں جانے دوگے؟اور اس وقت يہ کہہ سکتے ہو کہ ہم نے بہت سمجھاليا‘ اوران کا آگ ميں کودنا تم برداشت کرلوگے؟ جبکہ جہنم کي آگ تو اس دنيا کي آگ سے ستر گنا زيادہ سخت ہے- ٹھيک ہے اگر والدين يا سربراہ نے حتي المقدور کوشش کرکے اپنا فرض ادا کرديا ہے تو وہ عند اللہ برئ الذمہ ہوجائيں گے‘ ليکن کہاں تک اپني ذمہ داري نبھائي ہے؟ اور کس حد تک کوشش کي ہے؟ يہ ہر شحص اپنے بارہ ميں بخوبي جانتا ہے-
متعلقہ تحریریں:
نوجوان نسل قوم کي پہچان
کھيل کود کے ذريعے صبر کي تربيت