امام حسين (عليہ السلام) کيوں فراموش نہيں ہوتے؟ ( حصّہ چہارم )
کربلا ميں جام شہادت نوش کرنے والے آزاد مردان خدا کے سروں کو ديکھ کر يزيد يہ کہتا ہے:
اے کاش ميرے آباۆ اجداد جو بدر ميں قتل کردئيے گئے تھے آج يہاں موجود ہوتے اور ميرا بني ہاشم سے انتقام لينے کو مشاہدہ کرتے-
يہ سب اس قيام کي ماہيت پر دليل ہيں کہ يہ ايک اسلام کے خلاف قيام تھا اور جتنا بھي آگے بڑھتے رہيں اس کا پردہ فاش ہوتا رہے گا-
کيا امام حسين(عليہ السلام)اس خطرناک خطرہ کے مقابلہ ميں جو اسلام کو چيلنج کر رہا تھا اور يزيد کے زمانے ميں اپني حد سے عبور کر گيا تھا، خاموش رہ سکتے تھے؟ کيا خدا ، پيغمبراکرم(صلي اللہ عليہ و آلہ) اور وہ پاکدامن لوگ جنہوں نے اس کو پروان چڑھايا تھا اس بات کو پسند کرتے؟
کيا وہ عظيم الشان فداکاري ، ايثار مطلق اور اسلامي معاشرہ کے اوپرچھائي ہوئي مرگبار خاموشي کو توڑنے کيلئے قيام نہ کرتا اور جاہليت کے اس قبيح چہرہ کے اوپر بني اميہ کے پڑے پردہ کو فاش نہ کرتا ؟ اور اپنے پاک و پاکيزہ خون سے اسلام کي تاريخ کي پيشاني پر چمکتي ہوئي سطروں کو لکھ کر اس عظيم الشان قيام کو زندہ نہ کرتا؟
جي ہاں؟ امام حسين عليہ السلام نے يہ کام کيا اور اسلام کے لئے بڑي اور تاريخي ذمہ داري کو انجام ديا، اور تاريخ اسلام کے راہ کو بدل ديا ، اس نے اسلام کے خلاف بني اميہ کے حيلہ کو نابود کرديا اور ان کي ظالمانہ کوششوں کو نيست و نابود کرديا-
يہ ہے امام حسين (عليہ السلام) کے قيام کا اصلي اور حقيقي چہرہ، يہاں سے واضح ہوجاتا ہے کہ کيوںامام حسين (عليہ السلام) کا نام اور تاريخ کبھي فراموش نہيں ہوتي- وہ ايک عصر،قرن اور زمانے سے متعلق نہيں تھے بلکہ وہ اور ان کا ہدف ہميشہ زندہ و جاويد ہے ، انہوں نے حق،عدالت اور آزادگي کي راہ، خدا و اسلامي کي راہ، انسانوں کي نجات اور لوگوں کي اہميت کو زندہ کرنے کيلئے جام شہادت نوش کيا، کيا يہ مفاہيم کبھي پرانے اور فراموش ہوسکتے ہيں؟ نہيں ہرگز نہيں! ( جاري ہے)
متعلقہ تحریریں:
فرزند رسول حضرت امام حسين عليہ السلام کي حيات طيبہ پر ايک نظر
امام حسين (ع) کي لازوال تحريک