امام حسين (عليہ السلام) کيوں فراموش نہيں ہوتے؟ ( حصّہ دوّم )
سب جانتے ہيں کہ اس وقت پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ) نے ايک فکري اور اجتماعي انقلاب کے رہبر کے عنوان سے بشريت کو بت پرستي، خرافات اور جہل کے چنگل سے آزادي اور نجات دلانے کيلئے قيام کيا تھا-اور جن لوگوں پر ظلم ہوا تھا اور حق کے طالب لوگ جو اس زمانے کو بدلنے ميں سب سے اہم کردار ادا کررہے تھے پيغمبر اکرم نے ان سب کو جمع کيا، اس وقت اس اصلاحي قيام کے مخالف لوگ جن ميں سب سے آگے آگے بت پرست ثروتمند اور مکہ کے سود کھانے والے لوگ تھے انہوں نے اپني صفوں کو مرتب کيا اور اس آواز کو خاموش کرنے کيلئے انہوں نے اپني پوري طاقت سے کام ليا اور اس اسلامي حرکت کے خلاف سب سے آگے آگے ”اموي گروہ“ جن کا سرکردہ اور سرپرست ابوسفيان تھا-
ليکن آخر کار اس عظمت اور خيرہ کرنے والے اسلام کے سامنے اس کو گھٹنے ٹيکنے پڑے ، ان کي تمام انجمنيں بالکل نابود ہوگئيں-
يہ بات واضح رہے کہ نابود ہونے کے معني يہ نہيں ہيں کہ وہ بالکل جڑ سے ختم ہوگئے بلکہ انہوں نے اسلام کے خلاف اپني تمام تر کوششوں کو آشکار اور ظاہر ميں انجام دينے کے بجائے پشت پردہ انجام دينا شروع کر ديں(جو کہ ايک ہٹ دھرم، ضعيف اور شکست خوردہ دشمن کا حربہ ہوتا ہے) اور ايک فرصت کے انتظار ميں بيٹھ گئے-
بني اميہ نے پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ) کي رحلت کے بعد اسلام سے پہلي حالت کي طرف پلٹنے کيلئے ايک قيام کو ايجاد کرنے کي کوشش کي اور اس طرح انہوں نے اسلامي حکومت ميں اپنا نفوذ قائم کر ليا اور مسلمان، پيغمبر اکرم(صلي اللہ عليہ و آلہ )کے زمانے سے جتنا دور ہوتے جا رہے تھے يہ لوگ حالات کو اپنے حق ميں نزديک ديکھ رہے تھے-
خصوصا ”جاہليت کي کچھ رسميں“ جو بني اميہ کے علاوہ کچھ لوگوں نے مختلف اسباب کي بنياد پر دوبارہ زندہ کر دي تھيں اس کي وجہ سے جاہليت کے ايک قيام کے لئے راستہ ہموار ہو گيا، ان ميں جاہليت کي کچھ رسميں مندرجہ ذيل ہيں: ( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
فرزند رسول حضرت امام حسين عليہ السلام کي حيات طيبہ پر ايک نظر
امام حسين (ع) کي لازوال تحريک