• صارفین کی تعداد :
  • 7443
  • 3/9/2014
  • تاريخ :

شيعہ کافر ، تو سب کافر ( حصّہ ہشتم )

بسم الله الرحمن الرحیم

اور اب پاکستان ميں سود اعظم اہلسنت کے نام سے ايک يزيدي گروہ پھر سرگرم عمل ہے ، اس سلسلہ کلام کے آخر ميں ہم يہ عرض کرتے ہوئے کہ شيعيت مظلوميت اور مظلوم کي حمايت کي تاريخ ہے مولانا مودودي کي تحرير پيش کرتے ہيں "

"بنو اميہ کے خلاف ان کےطرز حکومت کي وجہ سے عام مسلمان ميں جو نفرت پھيلي اور اموي وعباسي دور ميں اولاد علي (ع) اور ان کے حاميوں پر ظلم وستم کي وجہ سے مسلمانوں کے دلوں ميں ہمدردي کے جو جذبات پيدا ہوئے انھوں نے شيعي دعوت کو غير معمولي طاقت بخش دي " (خلافت وملوکيت ص 211)

آپ کايہ فرمانا کہ فتنہ روافض نے خميني کہ شہ پر سر ابھارا ہے ------تو جناب يہ دبا ہوا کب تھا ،يہ تو آزادي کا دور ہے -بني اميہ اور بني عباس کے دور ميں بھي يہ سر ابھارتا رہا ہے -اور کٹتا رہا ہے - ----پاکستان اور ہندوستان کے شيعوں نے کون سي نئي گستاخي کي ہے جس کي بنا پر سر " ابھارنے " کا محاورہ استعمال کيا جارہا ہے -مجلس ،ماتم اور جلوس جو پہلے تھا سواب بھي ہے اور اسي طرح سے ہے کہ جيسے پہلے تھا ------دراصل آپ کي پريشاني کي وجہ يہ ہے کہ شيعيت نے ايران کے اسلامي انقلاب کي وجہ سے عالمي سطح پر اپنے آپ کو پہچنوايا ہے -آپ کو تکليف يہ ہے کہ اسلام اپني اصل روح کے ساتھ نافذ ہوا تو شيعہ کے ہاتھوں -اور صرف ايران ہي ميں نہيں بلکہ دنيا بھر کے مسلمانوں پر اس کے اثرات پڑے ہيں -خاص طور سے شيعوں ميں ہر جگہ ايک انقلابي طبقہ وجود ميں آ گيا ہے -----آپ کي پريشاني کي ايک وجہ يہ بھي ہے کہ ايران کے اسلامي انقلاب کي وجہ سے عرب رياستوں کے بد معاش شيخوں اور سعودي عرب کے شاہي لٹيروں کو خطرات لاحق ہيں -----اور يہ سب آپ کے آقا ہيں -

آپ کے دلوں ميں ابو سفيان والا اسلام نہ ہوتا تو آپ بھي اسلامي انقلاب سے عام مسلمانوں کي طرح خوش ہوتے ، مگرآپ خوش ہونے کے بجائے عام مسلمانوں کو آقائےخميني اور اس انقلاب سے بد ظن کرنے کا ہر ہتھکنڈہ استعمال کررہے ہيں -

آپ نے ارباب اقتدار سے بھي گزارش کي ہے کہ وہ شيعہ نوازي کا رويہ چھوڑيں اور شيعوں کے ساتھ وہ معاملہ کريں جو کسي اقليت کے ساتھ کيا جاتا ہے ------کيا آپ کو نہيں معلوم کہ ارباب اقتدار تعليم يافتہ ہيں وہ مسلمانوں کے ساتھ اقليت کا سا سلوک کيسے کر سکتے ہيں - پڑھے لکھے باشعور حکمراں تو اقليتوں کے جذبات کازياد ہ خيال رکھتے ہيں تاکہ انھيں يہ احساس نہ ہو کہ محض اقليت ہونے کي وجہ سے ان کے ساتھ زيادتي کي جا رہي ہے - آئين کي رو سے بھي بلا امتياز مذہب وعقيدہ تمام شہريوں کو يکساں حقوق حاصل ہيں - دراصل آپ کو شيعوں کے معاملے ميں اقلتيں اس لئے ياد آئيں کہ آپ ذہني طور سے اسي سڑے ہوئے زمانہ کي يادگار ہيں کہ اقليتوں کي ذمي بنا کر ان سے غلاموں جيسا برتاۆ کيا جاتا تھا اور آپ شيعوں کو بھي دوسرے درجہ کا شہري بنانا چاہتے ہيں -

ہم آپ کو بتا دينا چاہتے ہيں اور پہلے بھي بتاتے رہے ہيں کہ ہوش ميں آئيے -سعودي ريال کا اتنا نشہ اچھا نہيں -آپ اس نشہ ميں اپنے گھر کو کيوں برباد کرنے پر تلے ہوئے ہيں - يہ آپ کسے اقليت قرار دے رہے ہيں ؟ ملک کي چوتھائي آبادي کو اور وہ بھ کوئي آپ جيسے خرکاروں کي آبادي نہيں بلکہ دانشوروں ،اديبوں ،فنکاروں ،سياست دانوں اور اعلي عہديداروں کي آبادي ہے -آپ اس کريم کو نکال ديں گے تو آپ کے پاس بچے گا کيا ؟ ياد رکھئيے کہ ان کي وفا دارياں ملک سے اسي وقت تک برقرار رہتي ہيں کہ جب تک انھيں اپنے مخصوص روايات کے ساتھ عزت و آبرو سے جينے ديا جائے ورنہ بغداد سے لالوکھيت تک ايک ہي کہاني ہے -----بات زيادہ بڑھي تو پھر نہ کہيں جماعت اسلامي نظر آئے گي اور نہ سواد اعظم اور نہ ہي ہفت روزہ تکفير -

کتاب کا نام : شيعہ کافر تو سب کافر

مصنّف : علي اکبر شاہ

 


متعلقہ تحریریں: