شيعہ کافر ، تو سب کافر ( حصّہ پنجم )
حضرت عثمان کے خليفہ بننے کے بعد اہلبيت اور اسلام کا دشمن قبليہ بنواميہ مسلمانوں کے امور کا مالک بن گيا -لوگوں کے حقوق غصب کئےجانے لگے اورحکمرانوں طبقہ نے وہ تمام باتيں اختيار کر ليں کہ جنھيں مٹانے کے لئے اسلام آيا تھا پھر ايک شيعہ صحابي جناب ابو ذر کھڑے ہو گئے اور حکومت وقت کي پاليسيوں پر نکتہ چيني شروع کر دي-خليفہ نے گبھرا کر انھيں شام کے اموي گورنر معاويہ کے پاس بھيج ديا - يہ معاويہ کون تھا ؟ دشمن رسول (ص) ابو سفيان اور امير حمزہ (رض) کا کليجہ چبانے والي کا بيٹا -----تاريخ گواہ ہے کہ اس نے قيصر وکسري کي روش اختيار کر رکھي تھي - ابو ذر نے يہاں چند ہاتھوں ميں دولت کا ارتکاز ديکھا تو تڑپ اٹھے -وہ مسجد ميں ہوتے يا گلي کوچے ميں اس فتنہ کے خلاف آواز اٹھاتے -لوگوں کو اسلام کي اصل روح سے آگاہ کرتے - چنانچہ انھيں يہاں سے ايک بے کجادہ اونٹ پرسوار کرکے خليفہ کے پاس روانہ کر ديا گيا -جب آپ مدينہ پہنچے تو آپ ي رانيں زخمي تھيں -اب پھر خليفہ کو ابوذر کي نکتہ چيني کاسامنا تھا - لہذا انھوں نے ان کو ايک ويران مقام "ربذہ " کي طرف جلاوطن کر ديا - وہيں يہ صحابي رسول عالم مسافرت ميں اس دنيا سے رخصت ہوا - ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے جرم ميں خليفہ وقت نے ايک اور شيعہ صحابي حضرت عمار ياسر کو بھي تشدد کانشانہ بنايا -
دراصل يہ اور دوسرے مخلص صحابہ کرام تھے کہ جو اسلام کي تعليمات کو مسخ ہوتا ہوا ديکھ رہے تھے اور اس بات کا گہرا شعور رکھتے تھے کہ يہ سب کچھ محض اس لئے ہورہا ہے کہ پيغمبر اسلام کے بعد خلافت ان کے اصل جانشين سے جدا کر دي گئي تھي -تيسري خلافت کے دوران نوبت يہان تک پہنچي کہ کوفہ کے گورنے وليد بن عتبہ نے نشہ کي حالت ميں صبح کي نماز دو کے بجائے چار رکعت پڑھادي اور پھر ايک مرتبہ جھوم کر نمازيوں کي طرف متوجہ ہوا کہ کہو تو دورکعت اور پڑھا دوں -بيت المال کو جو کبھي اللہ کا مال سمجھا جاتا تھا اب خليفہ کو ذاتي ملکيت بن چکا تھا اور پھر ستم يہ کہ اس داد ہش کادائرہ صرف بنو اميہ تک محدود تھا ---- مروان بن حکم کہ جسے اور اس کے باپ کو رسول اللہ نے مدينہ سے نکال ديا تھا - اب پھر واپس بلالئے گئے خليفہ نے مروان جيسے سياہ کارکو اپن مشير خاص بناليا (تاريخ گواہ ہے کہ يہي مروان خليفہ کو لے ڈوبا )يہ وہ صورت حالات تھي کہ جس پر عوامي رد عمل ہونا ضروري تھا کيونکہ ابھي ايسے لوگوں کي بہت بڑي تعداد موجود تھي کہ جنھوں نے رسول اللہ کازمانہ ديکھا تھا اور وہ اسلام کي اصل روح کو سمجھتے تھے اور پھر وہ صحابہ کرام کہ جنھيں اہلبيت کي طرف رجحان رکھنے کے سبب شيعہ صحابہ کہا جاسکتا ہے اس عوامي رد عمل ميں پيش پيش تھے مگر ابن سبا کہ جو اسي دور کي شخصيت بتائي جاتي ہے کے بارے ميں اس عوامي رد عمل کے حوالے سے بات کيجاتي ہے تو اس کا کردار افسانوي لگتا ہے ---خليفہ سوم يا ان کے عمال کے خلاف جتني شورشيں ہوتيں ان ميں ابن سبا نام کا کوئي شخص نظر نہيں آتا -ہر جگہ مالک اشتر ،عمرو بن الحمق ،محمد بن ابي بکر (رضي اللہ عليھم) ہي پيش پيش نظرآتے ہيں - ( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
اہل تشيع کے اصول عقائد
آپ اپنے اماموں کو معصوم کيوں کہتے ہيں؟