رسول اکرم(ص) کي حيثيت
پيغمبر اکرم، دين اسلام کي خصوصيت و جامعيت کي بنا پر قرآن اور خود اپني سيرت طيبہ کے مطابق اپنے زمانہ ميں کئي حيثيتوں اور ذمہ داريوں کے حامل تھے، يعني ايک ہي وقت ميں کئي امور آپ کے ذمہ تھے اور آپ کئي نصبوں پر کام کررہے تھے چنانچہ پہلا منصب جو خداوند عالم کي جانب سے آپ کو عطاہوا تھا اور جس پر آپ عملي طور سے کاربند تھے، پيغمبري و رسالت تھي - يعني آپ الٰہي احکام و قوانين کو بيان فرماتے تھے - اس سلسلہ ميں قرآن کا ارشاد ہے :"ماآتاکم الرسول فخذوہ وما نھيٰکم عنہ فانتھوا [2] "يعني جو کچھ پيغمبر تمہارے لئےلاياہے اسے اختيار کرلواور جن چيزوں سے تمہيں منع کرتا ھے انھيں چھو ڑدو - يعني پيغمبر احکام و قوانين سے متعلق جو بھي کہتا ہے خدا کي جانب سے کہتا ہے - اس اعتبار سے پيغمبر صرف ان چيزوں کا بيان کرنے والا ہے جو اس پر وحي کي شکل ميں نازل ہوئي ہے - دوسرا منصب جس پر پيغمبر اسلام فائز تھے قضاوت کا منصب تھا يعني وہ تمام مسلمانوں کے درميان قاضي کي حيثيت رکھتے تھے - کيونکہ اسلام کي نظر ميں منصب قضاوت بھي کوئي يوں ہي سا بے معني منصب نہيں ہے کہ جہاں کہيں دو آدمي آپس ميں اختلاف کريں ايک تيسرا آدمي قاضي بن کر فيصلہ کر دے - قضاوت اسلامي نقطہ ءنظر سے ايک الٰہي منصب ہے کيونکہ يہاں عدل کا مسئلہ در پيش ہے ، قاضي وہ ہے جو نزع و اختلاف کے درميان عادلانہ فيصلہ کرے - يہ منصب بھي قرآن کے مطابق خداوند عالم کي جانب سے پيغمبر اکرم کو تفوين ہوا اور آپ خدا کي جانب سے حق رکھتے تھے کہ لوگوں کے اختلاف کا فيصلہ فرمائيں : فلا و ربک لا يوءمنون حتيٰ يحکموک فيما شجر بينہم ثم لا يجدو ا في انفسہم حرجا مما قضيت ويسلمو تسليما [3] "
معلوم ہوا يہ بھي ايک الٰہي منصب ہے کوئي معمولي عہدہ نہيں ہے اور پيغمبر عملي طور پر قاضي بھي تھے - تيسرا منصب جس پر پيغمبر قانوني طور سے فائز تھے يعني قرآن کي رو سے آپ کو عطا کيا گيا تھا اور آپ اس پر عمل پيرابھي تھے ، يہي رياست عامہ ہے يعني وہ مسلمان معاشرہ کے حاکم و رہبر تھے - دوسرے لفظوں ميں آپ مسلمانوں کے نگرا ں اور اسلامي معاشرہ کے سر پرست تھے - کہتے ہيں کہ : "اطيعو اللہ و اطيعو االرسول و اولي الامر منکم "کا مطلب يہ ہے کہ پيغمبر تمہارے معاشرے کا حاکم و رہبر ہے - وہ تمہيں جو حکم دے اسے تسليم کر و - لہٰذا يہ تينوں صرف ظاہري اور دکھاوے کے نہيں ہيں بلکہ بنيادي طور پر پيغمبر سے ہم تک جو کچھ پہنچا ہے اس کي تين حيثيتيں ہيں - ايک پيغمبر کا وہ کلام جو فقط وحي الٰہي ہے - يہاں پيغمبر بذات خود کوئي اختيار نہيں رکھتے جو حکم خدا کي طرف سے نازل ہوا ہے - پيغمبر اسے پہنچانے کا صرف ايک ذريعہ ہيں - مثال کے طور پر جہاں وہ ديني قوانين بيان کرتے ہيں کہ نمازيوں پڑھو ، روزہ ايسے رکھو وغيرہ - وہاں رسول کا ارشاد حکم خدا اور وحي ہے - ليکن جب لوگوں کے درميان قضاوت کرتے ہيں اس وقت ان کے فيصلے وحي نہيں ہوتے - يعني دو آدمي آپس ميں جھگڑتے ہيں، پيغمبر اسلامي قوانين کے مطابق دونوں کے درميا ن فيصلہ فرماديتے ہيں کہ حق مثلا اس شخص کے ساتھ ہے يا اس شخص کے - اب يہاں اس کي ضرورت نہيں ہے کہ جبرءيل پيغمبر پر نازل ہوں اور وحي کے ذريعہ بتائيں کہ اے رسول آپ کہءے کہ حق اس شخص کے ساتھ ہے يا نہٰں ہے - ہا ں اگر کوئي استثنائي موقع ہو تو دوسري بات ہے ورنہ کلي طور پر پيغمبر کے فيصلہ انہيں ظاہري بنيادوں پر ہوتے ہيں جن پر دوسرے فيصلے کرتے ہيں فرق يہ ہے پيغمبر کے فيصلے بہت ہي دقيق اور اعليٰ سطح کے ہوتے ہيں آپ نے خود ہي فرمايا ہے کہ ميں ظاہر پر حکم کرنے کے لئےمامور کيا گيا ہوں يعني مثلامدعي اور مدعيٰ اليہ اکٹھا ہوں اور مدعي کے ساتھ دو عادل گواہ بھي ہوں تو پيغمبر اسي ثبوت کي بنياد پر فيصلہ صادر فرماتے ہيں يہ وہ فيصلہ ہے جو خود پيغمبر نے فرمايا ہے- آپ پر وہي نہيں نازل ہوئي ہے -
تيسري حيثيت بھي جس کے بموجب پيغمبر معاشرہ کے نگراں اور رہبر ہيں اگر اس کے تحت وہ کوئي حکم دے يہ حکم بھي اس فرمان سے مختلف ہوگا جس ميں پيغمبر وحي خدا کو پہچانتے ہيں -
خدا نے آپ کو ايسي ہي حاکميت و رہبري کا اختيار ديا ہے اور ايک حق کي صورت ميں آ پ کو منصب عطا فرمايا ہے اور وہ بھي رہبر ہونے کي حيثيت سے اپنے فراءض انجام ديتے ہيں لہٰذا اکثرآپ بعض امور ميں لوگوں سے مشورہ بھي فرماتے ہيں - چنانچہ ہم تاريخ ميں ديکھتے ہيں کہ آپ نے بدر اور احد کي جنگوں ميں - نيز بہت سے دوسرے مقامات پر اپنے اصحاب سے مشورہ فرمايا - جب کہ حکم خدا ميں تو مشورہ کي گنجاءش ہي نہيں ہوتي کيا کبھي پيغمبر نے اپنے اصحاب سے يہ مشورہ بھي ليا کہ مغرب کي نماز ايسے پڑھي جائے يا ويسے ؟ بلکہ اکثر ايسے مسائل پيش آتے تھے کہ جب آپ سے ان مو ضوعات کے متعلق پو چھا جاتا تھا تو صاف فر ماديا کرتے تھے کہ مسائل کا ميري ذات سے کوئي تعلق نہيں ہے بلکہ يہ اللہ کي جانب سے ہي ايسا ہے اور اس کے علاوہ کچھ ہو بھي نہيں سکتا ليکن (احکام خدا کے علاوہ) دوسرے مسائل ميں پيغمبر اکثر مشورہ فرماتے تھے اور دوسروں کي رآئے دريافت کيا کرتے تھے اب اگر کسي موقع پر پيغمبر کوئي حکم دے کہ ايسا کرو تو يہ اس اختيار کے تحت ہے جو خدا نے آپ کو عطا فرمايا ہے - ہاں اگر کسي سلسلہ ميں مخصوص طور پر وحي بھينازل ہوجائے تو ايک استثنائي بات ہوگي -
اس کو عام مسائل سے الگ سمجھا جائے گا نہ يہ کہ تمام امور اور جزئيات ميں معاشرہ کا حاکم اور رہبر ہونے کي حيثيت سے معاشرہ کے لئےپيغمبر جو کام بھي انجام ديتے تھے - خدا ان کے لئےان پر وحي نازل فرماتا تھا کہ يہاں يہ کرو وہاں يہ کرو اور اس طرح کے مسائل ميں بھي پيغمبر صرف اک پيغام رساں کي حيثيت رکھتا رہا ہولہٰذا پيغمبر اسلام يقيني طور پر بيک وقت ان متعدد منصبو ں پر فائز رہے ہيں - ( جاري ہے )
کتاب کا نام : امامت و رهبري
تاءليف : آيۃ اللہ شہيد مطہّري(رہ)