سلمان رشدي ملعون کے ارتداد کا تاريخي فتوي ( حصّہ سوّم )
مسلمانوں نے ان مذموم اور انسان دشمن اقدامات پر ہرگز خاموشي اختيار نہ کي اور مظاہروں-تنقيدوں اور احتجاجوں کے ذريعے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کيا- مسلمانوں نے دنيا کي مختلف عدالتوں ميں ان جرائم کے خلاف مقدمات بھي دائر کئے ليکن ان عدالتوں نے آزادي اظہار کے نام پر ان مقدمات کو کسي طرح کي اہميت دينے سے انکار کيا-اور ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کوئي کاروائي نہيں کي-امريکي وزيرخارجہ نے "برات ازمسلميں" نامي فلم پر مسلمانوں کے شديد اجتجاج پر يہاں تک کہا تھا کہ امريکہ مسلمانوں کے احتجاج کي وجہ سے اپنے شہريوں کو اپنے خيالات کے اظہار سے نہيں روک سکتا-حقيقت يہ ہے کہ آزادي اظہار کا عالمي کنونشن اور انساني حقوق کے عالمي ادارے بھي ازادي اظہار کے نام پر اديان اور مذاہب کي توہين کو جائز نہيں سمجھتے-ان اداروں کے معاہدوں کا اگر سرسري مطالعہ بھي کيا جائے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ يہ ادارے بھي آذادي بيان کے حق کو بےحدوحساب نہيں سمجھتے اور نہ ہي ان کو بہانہ بنا کر مذاہب اور اديان کي توہين کو روا سمجھا جاسکتا ہے-مثال کے طور پر شہري اور سياسي حقوق کے عالمي ادارے کے آرٹيکل انيس کي تيسري شق ميں آيا ہے کہ آذادي بيان کے حق کے نفاز کے لئے کچھ ذمہ دارياں اور فرائض بھي عائد ہوتے ہيں اور ان ذمہ داريوں کي وجہ سے کـچھ پابنديوں کا بھي خيال رکھنا ہوتا ہے جو کہ کچھ اسطرح ہيں-
ا.دوسرے کے حقوق اور حيثيت کے احترام کے لئے
ب.قومي سلامتي کے تحفظ اور اجتماعي نظم وسلامتي کے لئے
پس آرٹيکل انيس کي تيسري شق کي روشني ميں آزادي اظہار کا حق اس وقت محدود ہو جاتا ہے جب اسکي وجہ سے کسي دوسرے کي حيثيت اور احترام متاثر ہو رہي ہو- شہري اور سياسي حقوق کے عالمي ادارے کے اس چارٹر کي بيسويں شق کے مطابق کسي بھي مذہب کے خلاف نفرت اور کينہ کي ترغيب ممنموع ہے-ان شقوں کو امريکي اور يورپي انساني حقوق کے معاہدوں ميں بھي تسليم کيا گيا ہے-انساني حقوق کے ديگر عالمي اداروں نے بھي آزادي بيان کي حق کومحدود کيا ہے خاص کرجب وہ کسي فرد يا گروہ کي حيثيت کو نقصان پہنچا رہا ہو-ايک ايسے عالم ميں جب مغرب اسلام کي توہين اور اسکے مقدسات کي اہانت کو آزادي بيان کے نام پر قبول کرتا ہے جبکہ دوسري طرف بعض مسائل منجملہ ہولوکاسٹ کے بارے ميں کسي طرح کي علمي تحقيق کي بھي اجازت نہيں ديتا-ہولوکاسٹ ان موضوعات ميں سے ہے جسکے بارے ميں غاصب اسرائيل سميت سولہ ملکوں ميں سخت پابندياں ہيں اور ان ملکوں ميں اسکا انکار ايک جرم سمجھا جاتا ہے-1988 ميں فرانس کي ايک عدالت نے معروف فلسفي اور سياستدان راجر گارودي کو صرف اس وجہ سے چاليس ہزار ڈالر کا جرمانہ کيا کيونکہ انہوں نے ہولوکاسٹ کے بارے ميں ايک علمي اور مدلل تنقيد کي تھي-مغرب کے اس رويے کو ديکھ کر بآساني کہا جاسکتا ہے کہ اہل مغرب آزادي بيان کے حوالے سے دوغلے رويوں اور دوہري پاليسيوں پر گامزن ہيں- ( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
مغربي زندگي کي خامياں
سيکولر طرز زندگي کا عام ہونا