• صارفین کی تعداد :
  • 3991
  • 12/18/2013
  • تاريخ :

کربلا منزل بہ منزل

کربلا منزل بہ منزل

عنوان کي جدت و دلکش تسليم ليکن کوئي اور نہيں ميرا اپنا دل کہتا کہ يہ درست بھي ہے يا نہيں؟ کربلا منزل بہ منزل يعني کيا؟ کربلا رہ نور دان عشق و آگہي کي آماجگاہ ،کاروان اخلاق و شرافت کي منزل آخر-کربلا سر نوشت مسجود ملائک کا پہلا و آخري ورق ،عہد و معبود ، نازو نياز کا نقطہ اتصال ،زندگي و بندگي کي صدرنگ معنويت کا نگارخانہ ہے - کربلا جادہ بھي ہے منزل بھي ،راہ بھي ہے راہبر بھي، داستان بھي عنوان بھي -يہاں ظرف و مظروف کا فرق مٹ جاگيا ہے نسبت و منسوب ميں حد فاصل نہيں رہ گئي ہے - کربلا کے معني ہيں حسين عليہ السلام اور حسين عليہ السلام يعني کربلا - دنيا کے عجائب خانے ميں بھي ايک نادر و منفرد تجربہ ہي ہے - تو پھر کربلا منزل بہ منزل کا مقصد؟

ليکن مجھے يہاں دونوں ميں خط جدائي کھينچنا ہے کيوں کہ موضوع کا تقاضہ ہے اگر چہ يہ ممکن ہے کہ وہ اسي طرح موسوم ہو جيسے خط نصف النہار جو دن کي تصنيف روزانہ ہي کيا کرتا ہے اس بات کو يوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ صف امامت کے گوہر بے بہا اور شمشير ولايت کے جوہر آبدار اور دو عالم کي آبرو حسين ابن علي عليہ السلام جو خير النساء کے پارہ تن صاحب لا فتيٰ کے لخت جگر اور محبوب خدا کے پروردہ آغوش تھے جن کا مولد حرم رسول اور شہر منور تھا ، جن کي گہوارہ جنباني روح الامين کرتے تھے ان کي منزل آخراور مرقد اطہر کي جلالت و شکوہ عالم کيا ہونا چاہئے اور اسے وہ رفعت و شان ملي بھي کہ نہيں-

يہ تو ہم ميں سے ہر ايک کو ياد ہے کہ امام عالي مقام نے اس خط  ارض پر قدم رکھتے ہي فرماياتھا: کہ يہ کرب اور بلا کي زمين ہے ليکن شائد ہم نے اس کا مفہوم و معني سمجھنے ميں کچھ زيادہ عجلت يا سہل انگاري سے کام ليا اور کربلا کو اندوہ و مصيبت کي جگہ مان کر اسے عاشورہ کے پر الم داستان و واقعات شہادت کا سر نامہ قرار دے ديا اور اس کا نام لے کر اپني فغان و فرياد کے لئے شعار بنا ليا اور بس-حالانکہ يہ امت کے ايک الوہي حکيم اور قرآن ناطق کا فقرہ تھا جس کي تہ داري ، معنويت ، گہرائي و وسعت کي تھاہ لگانا ممکن نہيں ليکن معمولي غور و فکر سے کھلتا ہے کہ امام عليہ السلام نے اس جملے ميں نفسيات انساني اور بشري ارتقا کي کنجي چھپا کے رکھ دي ہے اور بتايا ہے کہ کرب و غم ہي تو وہ متاع بے بہا ہے جس سے انسان اپنے وجود کي تکميل کرکے اپنا مقصد حيات پورا کر سکتا ہے - غم و الم جس کا آفاق ميں نہ بدل ہے نہ ہمسر رنج و بلا کي آنچ ميں تپ کر انسان کا تذکيہ نفس ہوتا ہے اور جوں جوں آزمائش و مصايب کي تپش بڑھتي ہے اس کا مادي پيکر پگھلنے لگتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ جوہر دو ما فوق البشر بن کر عالم لاہوت و مقام محمود کا مالک بن جاتا ہے- ( جاري ہے )


متعلقہ تحریریں:

عزاداري ميں جزع اور بے چيني

جزع اور بےچيني کے مصاديق