• صارفین کی تعداد :
  • 2971
  • 9/19/2013
  • تاريخ :

من لا يحضره الفقيه  کا تعارف

من لا يحضره الفقيه  کا تعارف

من لايحضرہ الفقيہ شيخ ابو جعفر محمد بن علي بن الحسين بن موسى بن بابويہ قمي المعروف شيخ صدوق (المتوفيٰ 381 ہجري) کي تاليفات ميں سے ہے-

علامہ حلي ان کے بارے ميں لکھتے ہيں:

ہمارے شيخ اور فقيہ اور خراسان ميں مذہب شيعہ کے زعيم، معمر عالم دين تھے اور تمام شيعہ علماء ان کي پيروي کرتے تھے- سنہ 355 ہجري کو بغداد تشريف فرما ہوئے- وہ اعلي مرتب فقيہ و حافظ حديث، عالم علم رجال اور محدث شمار کئے جاتے تھے اور حفظ حديث اور کثرت علم کي وجہ سے اہل قم ميں منفرد تھے- ان کي تاليفات کي تعداد 300 تک پہنچتي تھي اور سنہ 381 ہجري قمري ميں، رے ميں وفات پاچکے ہيں-

علامہ سيد بحرالعلوم ان کے بارے ميں لکھتے ہيں:

محمد بن علي بن الحسين بن موسي بن بابويہ قمي بزرگ شيعہ شخصيات اور شريعت اسلام کے ارکان ميں ايک رکن اور چوٹي کے محدث تھے جو سچے اماماموں (عليہم السلام) سے نقل حديث ميں صادق تھے- وہ امام زمانہ (عليہ السلام) کي دعا کي برکت سے دنيا ميں آئے تھے اور اسي وجہ سے فضل و کرامت کے اعلي ترين مراتب و مدارج تک پہنچے تھے اور امام زمانہ (عج) نے اپني توقيع کے ضمن ميں ان کے بارے ميں فرمايا تھا:

"صدوق بزرگوار فقيہ ہيں اور خداوند متعال ان کے وسيلے سے لوگوں کو بہرہ مند فرماتا ہے"-

شيخ صدوق کي تاليفات

1- علل الشرائں

2- عيون اخبار الرضا (عليہ السلام)؛

3- الامالي؛

4- الخصال؛

5- ثواب الاعمال؛

6- من لايخضرہ الفقيہ؛

علامہ سيد بحرالعلوم "من لايحضرہ الفقيہ کا يوں تعارف کرتے ہيں:

"يہ کتاب ان کتب ميں سے ايک ہے جو شہرت اور اعتبار کي حيثيت سے دن کي روشني کي مانند ہے"-

بحرالعلوم نے مزيد فرمايا ہے:

"بہت سے علماء من لا يحضرہ الفقيہ ميں منقولہ حديثوں کو تين ديگر کتب (الکافي، الاستبصار اور التہذيب) کي حديثوں پر ترجيح ديتے تھے کيونکہ ان کي رائے کے مطابق شيخ صدوق بےشمار حديثوں کے حافظ تھے اور انھوں نے اپني کتاب ميں حديثيں صحيح انداز سے ضبط کي ہيں اور نقل حديث ميں غور و تدبر کرتے رہے ہيں نيز انھوں نے اپني کتاب الکافي کے بعد تاليف کي ہے اور اپني کتاب ميں مذکورہ احاديث کي صحت کو يقيني بنا چکے ہيں اور نہ صرف بہت سے دوسرے محدثين کي طرح تمام تر احاديث کو جمع کرنے کے روادار نہ تھے بلکہ ايسي احاديث کو ثبت کرتے رہے ہيں جن کي بنياد پر وہ فتوي ديتے رہے ہيں اور اعتقاد راسخ کے ساتھ ان احاديث کو اپنے اور خدا کے درميان حجت سمجھتے تھے"

انھوں نے اپني کتاب "من لايحضرہ الفقيہ" کا نام محمد بن زکريا رازي کي کتاب "من لا يحضرہ الطبيب" سے اقتباس کيا ہے-

شيخ صدوق نے يہ کتاب 4 مجلدات ميں تاليف کي ہے اور محدث شيخ يوسف البحراني نے ان چار مجلدات ميں مذکورہ احاديث کو گن ليا ہے اور لکھا ہے کہ چاروں مجلدات ميں منقولہ احاديث کي تعداد 5963 احاديث ہے جن کو 446 ابواب ميں مرتب کيا گيا ہے-

احاديث کي ترتيب

3913 مُسنَد حديثيں؛

2050 مرسل حديثيں؛

اس کتاب کے قلمي نسخے بکثرت پائے گئے ہيں- اس کا ايک نسخہ 681 ہجري سے تعلق رکھتا ہے جو برطانيہ ميں مانچسٹر کے کتب خانے ميں محفوظ ہے اور اسي کتب خانے کي طرف سے 1934 ميں شائع ہونے والي فہرست کے صفحہ 298 ميں مذکور ہے- گوکہ ابھي تک وہ نسخہ مجھے نہيں ملا ہے-

يہ کتاب متعدد بار طبع ہوئي ہے:

الف- لکھنۆ ـ ہندوستان ميں سنہ 1300 ہجري؛

ب- تبريز ميں سنہ 1322 ہجري؛

ج- تہران ميں سنہ 1372 ہجري؛

د- نجف اشرف ميں 1377 ہجري-

سيد حسن خراساني نے شيخ صدوق کے مفصل حالات زندگي تحرير کرکے سنہ 1377 ہجري کو مطبوعہ نسخۂ من لايحضرہ الفقيہ کي جلد اول کے مقدمے کے طور پر شائع کئے ہيں-

-

 

منبع: ماخذ حديث از ديدگاه شيعه صفحه هاى 25, 38-37, 41, از طر يق شبكه امام على(ع) ـ علامه محمد حسين جلالى با مقدمه استاد مكارم شيرازي-

 

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی


متعلقہ تحریریں:

عقيدہ توحيد کے بارے ميں آئمہ کرام کے فرامين

اپنے دل کے دائمي  بتوں کو توڑ  ڈالو