• صارفین کی تعداد :
  • 2489
  • 2/17/2013
  • تاريخ :

آيات کا غلط مفہوم مت ليں

قرآن

اپنے راستوں کا انتخاب ہمارے ليۓ لازمي ہے يا اختياري ؟

ج - لوگوں کي سوچ اور مذھب ميں  خرابياں لانے والے ہميشہ آيات الہي کا غلط استعمال کرتے ہيں اور آيت کے خاص حصے کو لے کر  اپني سوچ کے مطابق  اور فائدے کے ليۓ خاص طرح کا  غلط ترجمہ اور تفسير کرتے ہيں -  اگر کسي بھي آيت کو سياق و سباق کے ساتھ  پورا پڑھا  جاۓ اور اس کے اتار چڑھاۆ پر توجہ دي جاۓ تو  آيت کے معني اور مفہوم  بالکل واضح ہو جاتے ہيں -

خدا تعالي اس آيت ميں اپنے خاص بندوں  اور «اولي الالباب» يعني اپنے برگزيدہ بندوں کے بارے ميں فرماتا ہے  ، يعني  وہ لوگ جنہوں نے نہ صرف ہدايت پائي ہے بلکہ بندگي ميں بھي سبقت لے گۓ اور وہ لوگ نہيں جو ابھي کچھ بھي نہيں جانتے ہيں  -

ان بندوں کي سب سے پہلي خصوصيت  طاغوت سے اجتناب ہے ،  اپنے اندر ہر طرح کي سرکشي سے اجتناب   يا  بيروني شياطين کي اطاعت اور بندگي سے اجتناب ہے  -

ان افراد کي دوسري خوبي دائمي توبہ اور ہميشہ کے ليۓ درگاہ الہي ميں لوٹ آنا ہے -  ايسے افراد کو بشارت دي گئي ہے  (لَهُمُ الْبُشْرَى)،  اور ہر کسي کو نہيں جو اپني عمر کو جھوٹي  اور بيہودہ باتيں سننے ميں گزارتا ہے -  کيا خدا تعالي  ايسے افراد کو  «أُوْلُوا الْأَلْبَابِ» پکاريں گے ؟

خدا تعالي نے ايسے افراد کے ليۓ فرمايا ہے جو ان خاص خصوصيات  کے ساتھ بات سنتے ہيں  ، ان کے ليۓ جو ہر معقول بات کو سنتے ہيں  يعني  وہ افراد جو صحيح اور درست بات کو سنتے ہيں ، آيات الہي کو سنتے ہيں ، حکمت والي باتوں  اور نصحيت آميز  گفتگو سنتے ہيں  اور بعض لوگوں کي طرح  سچي بات کے ليۓ خاموش نہيں رہتے ہيں -  پس  موضوع کے لحاظ سے ، کام ، شرائط زمان و مکان  اور اپني اور معاشرے کي ضرورت کے مطابق بہتر سے بہتر کا انتخاب کرتے ہيں  اور اس پر عمل کرتے ہيں -

«أَحْسَنَهُ» صفت تفضيلي ہے ، يعني «بهترين – نيک ترين» اور بہترين کا انتخاب ،  اچھے ، بہتر اور بہترين  ميں سے ہوتا ہے نہ کہ   برے اور اچھے  ، حق و باطل ، عالم و جاہل  وغيرہ  ميں سے -  

( جاري  ہے )

شعبہ تحرير و پيشکش تبيان