• صارفین کی تعداد :
  • 2303
  • 9/9/2012
  • تاريخ :

اسلام انساني تاريخ ميں ايک کرن

اسلام

ہمارے پاس تاريخ اعتبار سے بہت سے ذرا‏ئع ہيں مگر آج ہم جس تاريخ کو پڑھتے ہيں وہ عموماً مغربي موءرخوں اور مصنفوں کے خيالات اور اصطلاحات پر مشتمل ہوتي ہے- يورپ جس کي ذہني ترقي اور علمي و فکري بلندي کي تاريخ مسلمانوں کے زير اثر چند سو سال پہلے شروع ہوئي اور جس کا نقطہء آغاز انقلابِ فرانس يا اقتصادي انقلاب کہا جاسکتا ہے- اس سے قبل کي تاريخ کو اہل يورپ تاريک دور (Dark Age)  يا  ازمنہء وسطي (Middle Ages) سے ياد کرتے ہيں جب کہ حقيقت يہ ہے کہ اسلام کي آمد سے قبل يہ تاريکي عالم گير تھي، ليکن ساتويں صدي کي ابتداء ميں جب جزيرہ نمائے عرب ميں آفتابِ اسلام طلوع ہوا ، اس کي روشني (صرف ساتويں صدي) کے اخير تک ايشيا و افريقہ کے ايک بڑے حصے کو منور کرچکي تھي- يہ تاريکي صرف يورپ ميں چھائي ہوئي تھي اور مسلم اسپين و قبرص و سسلي کے استثناء کے ساتھ يہ تاريکي وہاں مسلسل بعد کي کئي صديوں تک چھائي رہي - عين اس وقت جب يورپ تاريک دور کي اندھيريوں ميں گم تھا، اسلامي تہذيب و تمدن کا آفتاب نصف النہار پر تھا اور وہ زمانہ تاريخِ عالم کي مذہبي، سياسي، علمي و فکري تاريخ کا روشن ترين زمانہ تھا- مشہور مغربي مفکر برٹرينڈ رسل (Bertrand Russel) نے لکھا ہے کہ 699عيسوي سے 1000عيسوي تک کے زمانے کو تاريک دور کہنے کي ہماري اصطلاح مغربي يورپ پر ناجائز ترکيز کي علامت ہے- اس وقت ہندوستان سے اسپين تک اسلام کي شاندار تہذيب پھيلي ہوئي تھي- اس وقت عالمِ عيسائيت کو جو کچھ دستياب نہيں تھا وہ اس تہذيب کو دستياب تھا- ہميں محسوس ہوتا ہے کہ مغربي يورپ کي تہذيب ہي تہذيب ہے، ليکن يہ ايک تنگ خيال ہے- (History of Western Philosophy,’ London, 1948, p. 419)

مغرب ومشرق کے عروج وزوال کے فلسفے کي راکھ سے اٹھارہويں اور انيسويں صدي کي مسلم جديديت کا آغاز ہوا- مسلم جديديت کے نقطہ نظر کے پس پشت خلافت ارضي کے زوال کا زير لب مرثيہ ہے، زوال کي موج خوں سر سے گزر گئي اور مسلمان قوت، طاقت اور حاکميت سے محروم کر ديے گئے لہٰذا عروج کيلئے طاقت، علم، قوت، سائنس، مغرب کا طريقہء علم وزندگي، مغربي آدرش، اقتدار اور استخلاف في الارض ہي اصل اہداف ٹھہرے- حيرت انگيز طور پر تمام قوم پرست، بنياد پرست، احيائي تحريکوں، جديديت پسند طبقات اور روايت پسند مفکرين کے يہاں عروج اور اقتدار کي زيريں لہريں مشترک ہيں- ان کا خيال ہے کہ مسلمانوں کا زوال اس وجہ سے ہوا کہ وہ علم وہنر وفنون ميں اور تسخير کائنات ميں پيچھے رہ گئے، مغرب نے ان ميدانوں ميں سبقت حاصل کي- عروج وزوال سے متعلق گزشتہ دو سو برس کے تجزيوں ميں متفقہ تجزيہ يہي ہے کہ جديد علوم کے ذريعے ہي اسلام کا غلبہ قائم ہوگا، اس کے سوا کاميابي اور کامراني کا کوئي راستہ نہيں ہے، يہ رويہ خالصتاً غلامانہ سوچ کا آئينہ دار ہے- اگر مغرب کے راستے کو کاملاً اختيار کر ليا جائے تو مشرق مغرب بن جائے گا مگر روحاني اخلاقي طور پر مغرب سے بدتر ہوگا- غلبے کي تشخيص وتجزيے ميں تبليغ اور دعوت دين کا کوئي ذکر نہيں ہے-

شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

اسلامي روح ہميشہ زندہ رہے