• صارفین کی تعداد :
  • 2845
  • 8/15/2012
  • تاريخ :

جمعۃ الوداع، يوم القدس اور ہماري ذمہ دارياں

یوم القدس

 امام خميني (رہ) نے اپنے ايک روحاني خطاب ميں جمعۃ الوداع کو يوم القدس قرار ديتے ہوئے فرمايا کہ اے مسلمانوں جمعۃ الوداع اجتماعي وحدت کي علامت ہے، اس دن کو القدس کي آزادي کے طور پر مناۆ، فلسطين کي آزادي کے مصم ارادہ و عزم کر لو- امام خميني (رہ) کے اس خطبہ کو دنيا بھر کے مفکروں نے آزاد فلسطيني رياست کے قيام کي جانب ايک اہم سنگ ميل قرار ديا- اسلامي ممالک کے رہنماۆں نے اپنے تاثرات ميں يہ اميد ظاہر کي کہ وہ دن دور نہيں جب دنيا اسرائيل سے نجات کي خوشخبري سنے گي-

پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ و سلم کا ارشاد گرامي ہے کہ جمعۃ المبارک کا دن سيد الايام ہے اور تمام دنوں سے افضل و بر تر ہے، اس ليے مسلمانوں کے ليے يہ دن سلامتي و رحمت کا حامل ہے، جسکي بڑي اہميت و فضليت ہے- رمضان کريم کے جمعہ کي اہميت اور بھي زيادہ ہو جاتي ہے کيونکہ اس جمعہ المبارک ميں رمضان الکريم کي فضيلتيں بھي شامل ہو جاتيں ہيں- ليکن جو فضليت اور مرتبت رمضان المبارک کے آخري جمعۃ المبارک کو حاصل ہے وہ کسي اور دن کو حاصل نہيں- جمعۃ الوداع نور علٰي نور اور قرآن العيدين ہے، جو مسلماں کي عظمت و شوکت، ہيبت و جلالت کا عظيم مظہر ہے-

بلاشبہ يہ دعاۆں کي قبوليت کا دن ہے، اس دن امت مسلمہ کي فلاح بہود اور عالم اسلام کے غلبہ و عزت کے ليے چہار سو مساجد ميں دعائيں مانگي جاتي ہيں- جمعۃ الوداع کے خطبہ کي بھي اپني شان و منزلت ہے، جس ميں مسلمانوں کو درپيش مسائل اور ان کے حل کے ليے اسلامي شعار کے مطابق راہ متعين کي جاتي ہے، اتحاد بين المسلمين کا درس ان خطبات کا خاصہ ہوتا ہے، انہي خطبات ميں ملت اسلاميہ کے ديرينہ مسائل کو حل کرنے کے پرزور مطالبات عالمي برادري کے سامنے پيش کئے جاتے ہيں-

جمعۃ الوداع کے خطبہ و نماز کے بعد دنيا بھر کے مسلمان ريليوں، جلسوں اور جلوسوں کي صورت ميں اسلامي دنيا کے خلاف امريکہ، اسرائيل اور مغربي ممالک کي پاليسيوں کي بھرپور مذمت کرتے ہيں اور ان پاليسيوں کے خلاف عظيم الشان مظاہرے برپا کرتے ہيں، جن ميں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے اسلام پسند عوام بھرپور شرکت کرتے ہيں- جمعۃ الوداع کي طرح قبلہ اول کي بھي اسلامي حوالے سے بيش بہا فضليت ہے، قبلہ اول (بيت المقدس) سرزمين فلسطين پر واقع ہے- يہ وہ مبارک مقام ہے جس کي جانب رخ فرما کر حضور نبي کريم اپنے اصحاب و انصار کے ہمراہ نمازيں ادا فرماتے تھے اور معراج کے سفر کا آغاز بھي اس مبارک مقام سے ہوا- 

قبلہ اول (بيت المقدس) چھ دہائيوں سے اسرائيل کے جبري قبضہ و تسلط ميں ہے، جس کو يہودي ’’ہيکل سلماني‘‘ ميں تبديل کرنے کا اعلان کرچکے ہيں اور اس مقدس مقام پر کسي مسلمان کو داخل ہونے کي اجازت حاصل نہيں- عالمي برادري مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے اس جابرانہ سلوک پر خاموش ہے- ملت اسلاميہ کي جانب سے جمعۃ الوداع کا مبارک دن قبلہ اول کي آزادي سے منسوب کرکے يوم القدس قرار ديا گيا ہے، تاکہ بيت المقدس کو يہوديوں کے شکنجہ سے آزادي دلانے کا جذبہ حريت مسلمانوں ميں کبھي ماند نہ پڑے اور عالمي عدالت انصاف، انساني حقوق کي عالمي تنظيميں بھي ملت اسلاميہ کے اس ديرينہ مسئلہ کو کبھي فراموش نہ کرسکيں-

مشرق وسطٰي کي آنکھ فلسطين انبياء کي سرزمين ہے، جہاں 1917ء تک مسلمان بڑي آبرومندانہ زندگي بسر کر رہے تھے، مگر دوسري جانب سويت يونين، يورپ و دنيا کے ديگر حصوں ميں يہوديوں کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا تھا- اس اثر کو زائل کرنے کے ليے يہاں کے حکمرانوں نے يہوديوں کو اپنے ممالک سے نکال کر باہر پھينکنا شروع کيا- يہوديوں نے اپنے سرمائے کے بل بوتے پر برطانيہ اور امريکہ سے اپنے ليے ايک الگ رياست کا مطالبہ کيا- يہوديوں کے اس مطالبہ کو عملي جامہ پہنانے کے ليے برطانيہ نے اپني فوجي طاقت کے بل بوتے پر عسکري لحاظ سے کمزور اسلامي مملکت فلسطين پر حملہ کيا اور اس کے ايک بڑے حصہ پر قبضہ کرليا-

برطانوي افواج نے فلسطين کے اس حصہ ميں يہوديوں کي آباد کاري کا عمل شروع کيا اور دوسري طرف مسلمانوں کو بيدردي سے تہ تيغ کيا- يہاں آباد ہونے والے يہوديوں کو امريکہ اور برطانيہ نے نہ صرف مہلک ہتھياروں سے ليس کيا، بلکہ ان کي بھرپور فوجي تربيت اور مدد کي- فلسطين ميں مسلمانوں کي قتل و غارت کا سلسلہ 1947ء تک برطانيہ کي نگراني ميں جاري رہا- 1947ء ميں فلسطين کي اس اسلامي سرزمين پر غيرقانوني طور پر وجود ميں لائي جانيوالي رياست اسرائيل کے قيام کا اعلان کيا گيا-

اسرائيل کے قيام کے بعد برطانيہ نے تو اپني افواج فلسطين سے نکال ليں، مگر اس ناجائز يہودي رياست کے تحفظ کي ذمہ داري امريکہ نے قبول کي- اس وقت سے تاحال اسرائيل امريکي سرپرستي ميں نہ صرف مظلوم فلسطيني عوام پر جبر و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے بلکہ دنيا بھر کے اسلامي ملکوں کے خلاف ايک گھناۆنے اور مذموم ايجنڈے پر کاربند ہے- امريکہ اپنے ناجائز لے پالک طفل شر کے ذريعے مشرق وسطٰي سميت تمام اسلامي دنيا کو غير مستحکم اور پسماندہ رکھنا چاہتا ہے- اسرائيل کے ناجائز قيام کے ليے يہود و نصاريٰ نے نظريہ ہولوکاسٹ متعارف کرايا- کچھ ناعاقبت انديش اور بکاۆ قلم رکھنے والے اس نظريہ سے اتنے متاثر نظر آتے ہيں کہ وہ اسرائيل کو بھي پاکستان کي طرح نظرياتي رياست کا نام دينے سے نہيں چوکتے- 

مغرب نے جو نظريہ ہولو کاسٹ متعارف کرايا، اس کے مطابق چونکہ يہوديوں پر بہت ظلم و ستم ڈھائے گئے ہيں، لہذا ان کے ليے عليحدہ رياست کا قيام ضروري ہے- اگر اس نظريہ کو درست بھي مان ليا جائے تو تاريخ بتاتي ہے کہ يہوديوں پر ظلم و ستم مسلمانوں يا عربوں نے نہيں ڈھائے، بلکہ يورپ اور امريکہ کے کئي علاقوں ميں عيسائيوں نے ڈھائے- ہٹلر دور ميں اور سے قبل و بعد يہوديوں کي نسل کشي کي گئي- ان کو اجتماعي قبروں ميں زندہ دفن کيا گيا، وغيرہ وغيرہ- بعد ميں عيسائيوں نے اپنے تاريخي جرائم پر پردہ پوشي کے ليے بچے کھچے يہوديوں کو اکھٹا کرکے مسلمانوں کي آزاد سرزمين پر مسلط کر ديا- 

ہونا تو يہ چاہيے تھا کہ يہوديوں کي رياست اسي جگہ قائم ہوتي، جہاں ان کے آباۆ اجداد کو عيسائيوں نے ظلم و بربريت کا نشانہ بنايا تھا- اس لحاظ سے وہ جگہ وسطي يورپ، برطانيہ کے نزديک بنتي ہے- يہوديوں نے بھي اپنے پيغمبر کي تعليمات سے روگراني کرتے ہوئے ان عيسائيوں سے تو محبت و دوستي کي پينگيں لڑاني شروع کر ديں، جنہوں نے ان کا قتل عام کيا، ليکن مسلمانوں کو اپنا دشمن قرار ديديا- 

فلسطين کي آزادي کي تحريکوں کو دنيا بھر کے مسلمانوں کي حمايت و سرپرستي حاصل رہي، ليکن فلسطيني کاز کو جو اہميت و حيثيت ايران ميں اسلامي انقلاب کے رونما ہونے کے بعد ميسر آئي، وہ اس سے قبل نہ تھي- امام خميني (رہ) کے زيرسايہ برپا ہونے والے اسلامي انقلاب نے پہلے دن سے ہي سامراج طاغوت کو اپنا دشمن اور ازلي حريف قرار ديا اور اسرائيل کو ايک غيرآئيني، غيرقانوني اور عالمي قواعد کے منافي قوت قرار ديکر اس کے مکمل خاتمہ کا مطالبہ کيا-

امام خميني (رہ) نے اپنے ايک روحاني خطاب ميں جمعۃ الوداع کو يوم القدس قرار ديتے ہوئے فرمايا کہ اے  مسلمانوں جمعۃ الوداع اجتماعي وحدت کي علامت ہے، اس دن کو القدس کي آزادي کے طور پر مناۆ، فلسطين کي آزادي کے مصم ارادہ و عزم کر لو- امام خميني (رہ) کے اس خطبہ کو دنيا بھر کے مفکروں نے آزاد فلسطيني رياست کے قيام کي جانب ايک اہم سنگ ميل قرار ديا- اسلامي ممالک کے رہنماۆں نے اپنے تاثرات ميں يہ اميد ظاہر کي کہ وہ دن دور نہيں جب دنيا اسرائيل سے نجات کي خوشخبري سنے گي- 

آزاد فلسطين کا ديرينہ خواب کب کا پورا ہوچکا ہوتا، اگر چند اسلامي رياستيں اپنے وسائل اور اختيارات سميت سامراج کي گود ميں سر نہ چھپاتي- يہ حکمران اقتدار اور مسند شاہي کو اللہ و اس کے رسول (ص) کي عطا سمجھنے کے بجائے اسے امريکہ برطانيہ کي عنايت سمجھتے ہيں- يہي وجہ کہ ان کا ہر عمل و اقدام امريکہ اور اس کے ميمنہ ميسرہ کي خوشنودي سے وابستہ ہے- برادر اسلامي ملک ايران کے صدر احمدي نژاد نے اپنے تاريخي خطاب ميں جب اسرائيل کے وجود پر مبني نظريہ ہولو کاسٹ پر مبني تقرير کي تو امريکہ، اسرائيل، برطانيہ، يورپ کے تمام حکمران اور نمائندے، مغربي ميڈيا شدت سے چيج اٹھے، جيسے ملت کے اس سپاہي نے ان کي دکھتي رگ پر اپنا پاۆں رکھا ہو- 

موجودہ وقت اسلام اور ملت اسلاميہ کے ليے کڑے امتحان سے کم نہيں- مذہب اور امت کے دشمن دنيا پر حکمراني کے خواب کو پورا کرنے کے ليے ہر خوفناک حربہ آزما رہے ہيں- ان کے مذموم عزائم کے آگے بند باندھنے کے ليے ضروري ہے کہ ملت اسلاميہ کا ہر مرد و زن، جوان، بچہ، بوڑھا بيدار رہے اور اپني استطاعت کے مطابق سامراجي منصوبوں (فرقہ واريت، عرياني، فحاشي، پرآسائش طرز زندگي، اخلاقي گراوٹ، اقدار، تہذيب، کلچر کي پامالي) کو مسترد کرے اور اتحاد بين المسلمين، سادہ و زاہدانہ طرز زندگي، اخلاق حسنہ، مشرقي اقدار و تہذيب، اسلامي نظريہ سياست، ملت کے اجتماعي حقوق کے ليے فکري و نظرياتي بيداري کا اہتمام کرے- 

پرنٹ و اليکڑانک ميڈيا کي اہميت سے انکار ممکن نہيں- ميڈيا سے وابستہ ہر مسلمان کي شرعي ذمہ داري ہے کہ وہ اسلامي معاشرے ميں اسلامي نظريات کا پرچار کرے- رمضان المبارک کے آخري جمعۃ الوداع (يوم القدس) کے مظاہروں، جلسوں، جلوسوں، سيمينارز، کانفرنسز اور ريليوں کي براہ راست کوريج کرے- تاکہ دنيا کے ہر شخص کو عالم اسلام کے ساتھ ہونيوالي زيادتيوں سے نہ صرف آگاہي حاصل ہو، بلکہ دنيائے امن کے ليے حقيقي خطرہ (امريکہ، اسرائيل --وغيرہ) کو سمجھنے کا شعور بھي حاصل ہو- 

علماء کرام کے ليے ضروري ہے کہ وہ اپنے خطبات ميں يوم القدس کي اہميت بيان کريں اور مسلمانوں کو اپنے عصري فرائض سے آگاہي ديں- سياسي جماعتوں کے رہنماء جمعتہ الوداع يوم القدس کے پروگراموں ميں شائد اس دليل کے بل بوتے شرکت نہيں کرتے کہ يہ صرف علماء، خطباء يا ديني جماعتوں کا مسئلہ ہے، حالانکہ قدس (قبلہ اول) و فلسطين کي آزادي سياسي و ديني مسئلہ ہے- لہذا تمام سياسي جماعتوں کے رہنماۆں کو ان پروگراموں ميں اپني شرکت يقيني بناني چاہيے- 

اسلامي ممالک کي افواج ميں شامل ہر جوان وطن اور مذہب سے وفاداري کا حلف ليتا ہے- اس حلف کا بھي تقاضا ہے کہ اسلامي افواج بيت المقدس کو يہودي استبداد سے آزاد کرانے کے ليے عملي کوششيں کريں اور يوم القدس کے مبارک موقع پر اسلامي بھائيوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، تاکہ پوري دنيا تک يہ پيغام جائے کہ اسلامي ممالک کي افواج اپني عوام، سرزمين اور مذہب کے ساتھ وابستہ ہيں- 

يوم القدس ہر ظالم کے ظلم کي نفي کرتا ہے- جہاں فلسطين کي آزادي کي آواز اجتماعات ميں بلند ہوتي ہے، وہاں امريکي ڈرون حملوں، کشمير ميں بھارتي و اسرائيلي گروپس کي گوريلا کارروائيوں، برما ميں ہونيوالي قتل و غارت کے خلاف بھي ہر مسلمان صدائے احتجاج بلند کرتا ہے اور کرتا رہے گا، جب تک عالمي ناانصافيوں کا سلسلہ ختم نہيں ہوتا، اس وقت تک پرامن دنيا کا خواب شرمندہ تعبير نہيں ہوسکتا- يوم القدس ملت اسلاميہ کے اجتماعي حقوق کا محافظ ہے، جو ہر مسلمان کو اپني شرعي ذمہ داريوں کا احساس دلاتا ہے-

تحرير: منير چوہدري/ اسلام ٹائمز

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

قدس کا راستہ کربلا سے گذرتا ہے 2