• صارفین کی تعداد :
  • 1945
  • 8/13/2012
  • تاريخ :

 روايات سے لکڑي کے بنے ہوئے دروازوں کي موجودگي ثابت ہوتي ہے

مدینہ

حين کلّم علي (ع) طلحة في امر عثمان ، انصرف علي (ع) الي بيت المال ، فأمر بفتحه ، فلم يجدوا المفتاح ، فکسر الباب ، و فرق ما فيه علي الناس ، فانصرفوا من عند طلحه حتي بقي وحده ، فسر عثمان بذالک- (تاريخ طبري ـ ج4 ـ ص431)

* ديگر روايات ديگر روايات سے لکڑي کے بنے ہوئے دروازوں کي موجودگي ثابت ہوتي ہےسے لکڑي کے بنے ہوئے دروازوں کي موجودگي ثابت ہوتي ہے؛ اور "شق الباب = لکڑي کے بنے ہوئے دروازوں کے شگاف" پر دلالت کرتي ہيں- امر مسلم ہے کہ پردے کا کوئي شگاف يا شق يا دراڑ نہيں ہوتي بلکہ لکڑي کے تختوں يا "سعف نخل = کھجور کي شاخوں" سے بنے ہوئے دروازوں ميں شگاف ہوتا ہے- ام المۆمنين عائشہ سے مروي ہے کہ: «جب لوگ جعفر بن ابي‌طالب اور عبداللہ بن رواحة کي شہادت کي خبر لائے پيغمبر اکرم زمين پر بيٹھ گئے اور حزن و غم کے آثار چہرہ مبارک ميں ہويدا ہوئے اور ميں "شق الباب = دروازے کے شگاف" سے ديکھ رہي تھي---» (کنزالعمال ـ ج15ـ ص732)-

نيز امام صادق (ع) امير المۆمنين علي (ع) سے روايت کرتے ہيں کہ: «--- بينا رسول اللہ صلّى اللہ عليہ والہ في بعض حجر نسائہ وبيدہ مدراة، فاطلع رجل من شق الباب، فقال لہ رسول اللہ صلّى اللہ عليہ وآلہ : لو كنت قريباً منك لفقأت بها عينك »-** ايک دن رسول اللہ (ص) اپني ايک زوجہ کے حجرے ميں بيٹھے تھے اور ايک «مدرات" (= لکڑي يا دھات کي بني ہوئي کنگھي) آپ (ص) کي دست مبارک ميں تھي اسي وقت ايک مرد نے "شق الباب = دروازے کے شگاف" سے اندر کي طرف نظر ڈالي اور پيغمبر اکرم (ص) نے فرمايا: اگر ميں تمہارے قريب ہوتا تو اس کنگھي سے تمہاري آنکھ کو پھوڑ ديتا»-

(رواه الكليني في الكافي 7: 292|11 والصدوق في الفقيه 4 : 74 | 226، والطوسي في تهذيبه 10 : 207 | 818 ، وأماليه 2: 12 بتفاوت يسير، ونقله المجلسي في بحاره 79 : 278 | 4 - قرب الاسناد ـ ص18 و من لايحضره الفقيه ـ ج 4 ـ ص 74)

 مکہ کے گھروں کے بھي دروازے تھے

گو کہ مذکورہ بالا سندات اور ثبوتوں کے ہوتے ہوئے ديگر سند وثبوت کي ضرورت نہيں ہے مگر اہل بيت نيوز ايجنسي (ابنا) کے عزيز صارفين کي مزيد اطلاع کے لئے وہ روايات بھي پيش خدمت ہيں جو مکہ کے گھروں ميں دروازوں کي موجودگي ثابت کرتي ہيں- يہاں البتہ اختصار کا لحاظ رکھا جائے گا:

1- جب قريش نے نبي اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کو قتل کرنے کا ارادہ کيا تو جناب ابوطالب عليہ السلام نے اپنے فرزند علي عليہ السلام کو حکم ديا کہ: «جان پدر! اپنے چچا ابولہب کے پاس جاۆ اس کے گھر کے دروازے پر دستک دو اور اگر اس نے دروازہ نہ کھولا تو دروازہ توڑ دو اور گھر ميں داخل ہوجاۆ اور اس سے کہدو کہ: «ميرے والد نے تمہيں پيغام ديا ہے کہ: جس آدمي کا چچا زندہ ہو وہ ذليل نہيں ہوجاتا»- پس علي (ع) ابولہب کے گھر گئے؛ دروازہ بند پايا تو دروازے پر دستک دي اور فرمايا: «دروازہ کھولو» مگر کسي نے جواب نہيں ديا تو آپ نے دروازہ توڑ ديا اور ابولہب کے گھر ميں داخل ہوئے---

(الکافي ـ ج8 ـ ص276 و 277)

2- از «ام ہاني» دختر ابوطالب نقل است کہ: «لما کان يوم فتح مکہ أجرت رجلين من أحمائي، فادخلتہما بيتا و اغلقت عليہما بابا»

(مسند احمد ـ ج6ـ ص343)

3- رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي يہ حديث بھي بہت معروف و مشہور ہے کہ جب فتح مکہ کے دوران لشکر اسلام مکہ معظمہ ميں داخل ہوا تو آپ (ص) نے فرمايا: «من دخل دار ابي‌سفيان فہو آمن ، و من اغلق [عليہ] بابہ فہو آمن» يعني «جو شخص ابوسفيان کے گھر ميں داخل ہوگا اس کے لئے امان ہے اور جو شخص اپنے گھر ميں داخل ہوجائے اور دروازہ اندر سے بند کردے اس کے لئے امان ہے»-

(سنن ابي داود ـ ج2ـ ص162 و مسند احمد ج2ـ ص292 و وسائل الشيعه ـ ج15ـ ص27 و تهذيب الاحکام ـ ج4 ـ ص116 و صحيح مسلم ( انتشارات داراحياء التراث العربي ) ـ ج3 ـ ص1408 و کافي ج5 ـ ص 12 و بحارالانوار ـ ج 75ـ ص 169 و ---)

يہ امر قابل ذکر ہے کہ چونکہ مکہ «حرمِ امن تھا لہذا امن وامان کي حوالي سے مدينہ کي نسبت بہت بہتر تھا اور اس ميں خانہ جنگي اور خونريزي کا امکان نہ تھا؛ مگر علامہ سيد جعفر مرتضي عاملي کي کتاب مأساة الزہراء ميں متعدد احاديث – مدينہ تو کيا - مکہ کے گھروں ميں بھي دروازوں کي موجودگي پر دلالت کرتي ہيں جن ميں سے ہم نے تين احاديث پر اکتفا کيا-

علامہ جعفر مرتضي عاملي

تلخيص: ع- حسيني عارف

ترجمہ: ف-ح-مہدوي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

شب قدر نزولِ قرآن کي رات