• صارفین کی تعداد :
  • 2706
  • 8/8/2012
  • تاريخ :

شب قدر نزولِ قرآن کي رات  

شب قدر

قرآن کي آيات سے اچھي طرح معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجيد ماہ مبارک ميں نازل ہوا ہے :”‌ شہر رمضان الذي انزل فيہ القراٰن “ (بقرہ- 185) اور اس تعبير کا ظاہر يہ ہے کہ سارا قرآن اسي ماہ ميں نازل ہوا ہے -

اور سورہ قدر کي پہلي آيت ميں مزيد فرماتا ہے : ہم نے اسے شب قدر ميں نازل کيا “- (انّآ انزلناہ في ليلة القدر)

اگر چہ اس آيت ميں صراحت کے ساتھ قرآن کا نام ذکر نہيں ہوا ، ليکن يہ بات مسلم ہے کہ ”‌ انّا انزلناہ“ کي ضمير قرآن کي طرف لوٹتي ہے اور اس کا ظاہري ابہام اس کي عظمت اور اہميت کے بيان کے ليے ہے -

”‌ انّا انزلناہ“ ( ہم نے اسے نازل کيا ہے ) کي تعبير بھي اس عظيم آسماني کتاب کي عظمت کي طرف ايک اور اشارہ ہے جس کے نزول کي خدا نے اپني طرف نسبت دي ہے مخصوصاً صيغہ متکلم مع الغير کے ساتھ جو جمع کامفہوم رکھتا ہے ، اور يہ عظمت کي دليل ہے -

اس کا شب”‌ قدر“ ميں نزول وہي شب جس ميں انسانوں کي سر نوشت اور مقدرات کي تعين ہوتي ہے - يہ اس عظيم آسماني کتاب کے سرنوشت ساز ہونے کي ايک اور دليل ہے-

اس آيت کو سورہ بقرہ کي آيت کے ساتھ ملانے سے يہ نتيجہ نکلتا ہے کہ شب قدر ماہ مبارک رمضان ميں ہے ، ليکن وہ کون سي رات ہے قرآن سے اس بارے ميں کچھ معلوم نہيں ہوتا - ليکن روايات ميں اس سلسلہ ميں بھي اور دوسرے مسائل کے بارے ميں بھي گفتگو کريں گے-

يہاں ايک سوال سامنے آتا ہے اور وہ يہ ہے کہ تاريخي لحاظ سے بھي اور قرآن کے مضمون کے پيغمبر اکرم کي زندگي سے ارتباط کے لحاظ سے بھي يہ مسلم ہے کہ يہ آسماني کتاب تدريجي طور پر اور 23 / سال کے عرصہ ميں نازل ہوئي ہے - يہ بات اوپر والي آيات سے جو يہ کہتي ہيںکہ ماہ رمضان ميں اور شب قدر ميں نازل ہوئي، کس طرح ساز گار ہوگي؟

اس سوال کا جواب:- جيسا کہ بہت محققين نے کہا ہے - يہ ہے کہ قرآن کے دو نزول ہيں -

1- نزول دفعي : جو ايک ہي رات ميں سارے کا ساراپيغمبراکرم کے پاس قلب پريا بيت المعمور پر يا لوح محفوظ سے نچلے آسمان پر نازل ہوا-

2- نزول تدريجي : جو تيئس سال کے عرصہ ميں نبوت کے دوران انجام پايا - ( ہم سورہ دُخان کي آيہ 3 جلد 12 تفسير نمونہ ص 26سے آگے اس مطلب کي تشريح کے چکے ہيں )-

بعض نے يہ بھي کہا ہے کہ آغازِنزول ِ قرآن شب قدر ميں ہواتھا، نہ کہ سارا قرآن ، ليکن يہ چيز آيت کے ظاہر کے خلاف ہے ، جو کہتي ہے کہ ہم نے قرآن کو شب قدر ميں نازل کيا ہے -

قابل توجہ بات يہ ہے کہ قرآن کے نازل ہونے کے سلسلے ميں بعض آيات ميں ”‌ انزال“ اور بعض ميں ”‌ تنزيل“ تعبير ہوئي ہے - اور لغت کے کچھ متنوں سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ ”‌ تنزيل “ کا لفظ عام طور پر وہاں بولا جاتا ہے جہاں کوئي چيز تدريجاًنازل ہو ليکن ”‌ انزال “ زيادہ وسيع مفہوم رکھتا ہے جو نزول دفعي کو بھي شامل ہوتا ہے - 1

تعبير کايہ فرق جو قرآن ميں آياہے ممکن ہے کہ اوپر والے دو نزولوں کي طرف اشارہ ہو-

بعد والي آيت ميں شب قدر کي عظمت کے بيان کے ليے فرماتاہے :”‌ تو کيا جانے کہ شب قدر کيا ہے “-( وما ادراک ماليلة القدر)-

اور بلا فاصلہ کہتا ہے :”‌ شب قدر ايک ايسي رات ہے جو ہزار مہينے سے بہتر ہے “-( ليلة القدر خير من الف شہر )-

يہ تعبير اس بات کي نشان دہي کرتي ہے کہ اس رات کي عظمت اس قدر ہے کہ پيغمبر اکرم نور مجسم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم تک بھي اپنے اس وسيع وعريض علم کے باوجود آيات کے نزول سے پہلے واقف نہيں تھے -

ہم جانتے ہيں کہ ہزار ماہ اسّي (80) سال سے زيادہ ہے - واقعاً کتني باعظمت رات ہے جو ايک پر برکت طولاني عمر کے برابر قدر و قيمت رکھتي ہے -

بعض تفاسير ميں آيا ہے کہ پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم نے فرمايا:

”‌ بني اسرائيل ميں سے ايک شخص نے لباسِ جنگ زيب تن کررکھا تھا ، اور ہزار ماہ تک اسے نہ اتا را ، وہ ہميشہ جہاد في سبيل اللہ ميں مشغول ( يا آمادہ ) رہتا تھا ، پيغمبر اکرم کے اصحاب و انصار نے تعجب کيا، اور آرزو کي کہ کاش اس قسم کي فضيلت و افتخار انہيں بھي ميسر آئے تو اوپروالي آيات نازل ہوئيں - اور بيان کياکہ شب قدر ہزار ماہ سے افضل ہے - 2

ايک اور حديث ميں آياہے کہ پيغمبر نے بني اسرائيل کے چار افراد کو ذکر کيا جنہوں نے اسي سال بغير معصيت کيے خدا کي عبادت کي تھي- اصحاب نے آرزو کي کہ کاش وہ بھي اس قسم کي توفيق حاصل کرتے تو اس سلسلہ ميں اوپر والي آيات نازل ہوئيں-3

اس بارے ميںکہ يہاں ہزار کا عدد”‌ تعداد“ کے لئے ہے يا”‌ تکثير“ کے ليے بعض نے کہا ہے : يہ تکثير کے ليے ہے ، اور شب قدر کي قدر و منزلت کئي ہزار ماہ سے بھي زيادہ ہے ، ليکن وہ روايات جوہم نے اوپرنقل کي ہيں وہ اس بات کي نشان دہي کرتي ہيںکہ عددِ مذکور تعداد ہي کے لئے ہے اور اصولي طور پر بھي عدد ہميشہ کے لئے ہوتا ہے مگر يہ تکثير پر کوئي واضح قرينہ موجود ہو ، اوراس کے بعد اس عظيم رات کي مزيد تعريف و توصيف کرتے ہوئے اضافہ کرتا ہے : ”‌ اس رات ميں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کے اذن سے ہر کام کي تقدير کے ليے نازل ہوتے ہيں“- (تنزل الملائکة و الروح فيھا باذن ربھم من کل امر)-

اس بات کي طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ”‌ تنزل“ فعل مضارع ہے اور استمرار پر دلالت کرتا ہے ( جو اصل ميں ”‌ تتنزل“ تھا)- واضح ہو جاتا ہے کہ شبِ قدر پيغمبر اکرم اور نزولِ قرآن کے زمانہ کے ساتھ مخصوص نہيں تھي، بلکہ يہ ايک امر مستمر ہے ، اور ايسي رات ہے جو ہميشہ آتي رہتي ہے اور ہر سال آتي ہے -

اس بارے ميں کہ روح سے کيا مراد ہے بعض نے تو يہ کہا ہے کہ اس سے مراد ”‌ جبرئيل امين “ ہے ، جسے ”‌ روح الامين “ بھي کہا جاتا ہے ، اور بعض نے ”‌ روح“ کي سورہ شوريٰ کي آيہ 52”‌ و کذلک اوحينا اليک روحاً من امرنا“ ”‌ جيسا کہ ہم نے گزشتہ انبياء پر وحي کي تھي، اسي طرح سے تجھ پر بھي اپنے نافرمان سے وحي کي ہے“-

کے قرينہ سے ”‌ وحي“ کے معني ميں تفسير کي ہے -

اس بناء پر آيت کا مفہو م اس طرح ہوگا”‌ فرشتے وحي الٰہي کے ساتھ، مقدرات کي تعيين کے سلسلہ ميں ، اس رات ميں نازل ہوتے ہيں “- يہاں ايک تيسري تفسير بھي ہے جو سب سے زيادہ قريب نظر آتي ہے - اور وہ يہ ہے کہ”‌ روح ايک بہت بڑي مخلوق ہے جو فرشتوں سے مافوق ہے ، جيساکہ ايک امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ ايک شخص نے آپ سے سوال کيا : کيا روح وہي جبرئيل ہے “ ؟ امام عليہ السلام نے جواب ميں فرمايا:”‌ جبرئيل من الملائکة، و الروح اعظم من الملائکة ان اللہ عز و جل يقول : تنزل الملائکة و الروح“-

”‌ جبرئيل تو ملائکہ ميں سے ہے ، اور روح ملائکہ سے زيادہ عظيم ہے ، کيا خدا وند تعاليٰ يہ نہيں فرماتا : ملائکہ اور روح نازل ہوتے ہيں ، ؟4

يعني مقابلہ کے قرينہ سے يہ دونوں آپس ميں مختلف ہيں لفظ ”‌ روح“ کے لئے يہاں دوسري تفاسير بھي ذکر ہوئي ہيں کيونکہ ان کے ليے کوئي دليل نہيں تھي ، لہٰذا ان سے صرف نظرکي گئي ہے

”‌ من کل امر“ سے مراد يہ ہے کہ فرشتے سر نوشتوں کي تقدير و تعين کے لئے ، او رہر خير و برکت لانے کے لئے اس رات ميں نازل ہوتے ہيں ، اور ان کے نزول کا مقصدان امور کي انجام دہي ہے -

يا يہ مراد ہے کہ ہر امر خير اور ہر سر نوشت اور تقدير کو اپنے ساتھ لاتے ہيں - 5

”‌ربھم“ کي تعبير کو، جس ميں ربوبيت اور تدبير جہاں کے مسئلہ پر بات ہوئي ہے ، ان فرشتوں کے کام کے ساتھ قريبي مناسبت ہے ، کہ وہ امور کي تدبير و تقدير کے ليے نازل ہوتے ہيں، اور ان کا کام بھي پروردگارکي ربوبيت کا ايک گوشہ ہے -

اور آخري آيت ميں فرماتا ہے :”‌ يہ ايک ايسي رات ہے ، جو طلوع صبح تک سلامتي اور خير و برکت و رحمت سے پر رہتي ہے “-

( سلام ھي حتي مطلع الفجر)-

قرآن بھي اسي ميں نازل ہوا، اس کا احياء اور شب بيداري بھي ہزار ماہ کے برابر ہے ، خدا کي خيرات و برکات بھي اسي شب ميں نازل ہوتي ہيں ، اس کي رحمتِ خاص بھي بندوں کے شامل حال ہوتي ہے ، اور فرشتے اور روح بھي اسي رات ميں نازل ہوتے ہيں -

اسي بناء پر يہ ايک ايسي رات ہے جو آغاز سے اختتام تک سرا سر سلامتي ہي سلامتي ہے- يہاں تک کہ بعض روايات کے مطابق تو اس رات ميں شيطان کو زنجير ميں جکڑ ديا جاتا ہے - لہٰذا اس لحاظ سے بھي يہ ايک ايسي رات ہے جو سالم او رسلامتي سے توام ہے -

اس بناء پر ”‌ سلام “ کا اطلاق ، جو سلامت کے معني ميں ہے -( سالم کے اطلاق کے بجائے) حقيقت ميں ايک قسم کي تاکيد ہے ، جيسا کہ بعض اوقات ہم کہہ ديتے ہيں کہ فلاں آدمي عين عدالت ہے -

بعض نے يہ بھي کہا ہے کہ اس رات پر”‌ سلام “کا اطلاق اس بناء پر ہے کہ فرشتے مسلسل ايک دوسرے پريا مومنين پر سلام کرتے ہيں ، يا پيغمبر کے حضور ميں اور آپ کے معصوم جانشين کے حضور ميں جاکر سلام عرض کرتے ہيں -

ان تفسيروں کے درميان بھي ممکن ہے -

بہر حال يہ ايک ايسي رات ہے جو ساري کي ساري نور و رحمت ، خير و بر کت، سلامت و سعادت، اور ہر لحاظ سے بے نظير ہے -

ايک حديث ميں آياہے کہ امام محمد باقر عليہ السلام سے پوچھا گيا - کياآپ جانتے ہيںکہ شب قدر کونسي رات ہے ؟ تو آپ نے فرمايا-

”‌ کيف لانعرف و الملائکة تطوف بنا فيھا“

”‌ ہم کيسے نہ جانيں گے جب کہ فرشتے اس رات ہمارے گرد طواف کرتے ہيں“- 6

حضرت ابراہيم عليہ السلام کے واقعہ ميں آيا ہے کہ خدا کے کچھ فرشتے آپ کے پاس آئے اور انہيں بيٹے کے تولد کي بشارت دي اور ان پر سلام کيا ، ( ہود-69)- کہتے ہيں کہ ابراہيم عليہ السلام کي جو لذت ان فرشتوں کے سلام ميں آئي، ساري دنيا کي لذتيں بھي اس کے برابرنہيں تھيں- اب غور کرنا چاہئيے کہ جب شب قدر ميں فرشتے گروہ درگروہ نازل ہورہے ہوں، اور مومنين کو سلام کررہے ہوں ،تو اس ميں کتني لذت، لطف اور برکت ہوگي؟! جب ابراہيم کو آتش نمرودميں ڈالا گيا ، تو فرشتوں نے آکر آپ کو سلام کيااور آگ ان پر گلزار بن گئي ، تو کيا شب قدر ميں مومنين پر فرشتوں کے سلام کي برکت سے آتش دوزخ”‌ برد“و”‌ سلام “ نہيں ہو گي ؟ -

ہاں ! يہ امت محمد صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کي عظمت کي نشاني ہے کہ وہاں تو خليل پر نازل ہوتے ہيں اور يہاں اسلام کي اس امت پر -7

1- مفردات راغب مادّہ نزل-

2- ”‌ در المنثور“ جلد 6 ص 371-

3- ”‌ در المنثور“ جلد 6 ص 371-

4- ”‌ تفسير بر ہان “ جلد 4 ص 481-

5-بعض نے يہ بھي کہا ہے کہ اس سے مراد يہ ہے کہ وہ خدا کے امر و فرمان سے نازل ہوتے ہيں ليکن مناسب وہي پہلا معني ہے -

6- ”‌ تفسير برہان“ جلد 4 ص488 حديث 29-

7- ”‌ تفسير فخر رازي“ جلد 32 ص 36-

بشکريہ : عرفان ڈاٹ آئي آر

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

احاديث ميں «مفتاح = چابي» کا لفظ مسلسل دہرايا گيا ہے