• صارفین کی تعداد :
  • 1935
  • 3/24/2012
  • تاريخ :

کيا رسول اللہ کے بستر پر سونا فضيلت نہ تھا4

امام علی

کيا رسول اللہ کے بستر پر ليٹنا فضيلت نہ تھا1

کيا رسول اللہ کے بستر پر سونا فضيلت نہ تھا2

کيا رسول اللہ کے بستر پر سونا فضيلت نہ تھا3

... مثلاً خداوند متعال فرمادے کہ حج اس کي رضا کا سبب ہے؛ اس صورت ميں جو بھي حج بجا لائے؛ لوگ اس کے عمل کو نيک سمجھتے اور اس کي مداحي کرتے ہيں کيونکہ اس کے عمل کي ظاہري صورت خدا کي رضا و خوشنودي کا سبب ہے گوکہ وہ (لوگ) اس شخص کي نيت اور اور باطن سے بے خبر ہوں-

دوسرے يہ کہ خداوند متعال کسي کے مخصوص عمل کي تأئيد فرمائے؛ ايسي صورت ميں ہم يقيني طور پر جانتے ہيں کہ اس کي نيت اور عمل اور اس کے عمل کي ظاہري اور باطني صورت کو خدا کي تأئيد حاصل ہے اور ايسے عمل کي فضيلت ميں شک نہيں ہے-

کسي فعل کي وقعت کي تشخيص کا دوسرا معيار يہ ہے کہ ايک رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومين عليہم السلام ميں سے کوئي معصوم اس شخص کے عمل کي تأئيد کرے اور اس کي صحت اور درستي کي تصديق کرے يوں بھي ہم کہہ سکتے ہيں کہ فلاں عمل کتني وقعت رکھتا ہے؛ يہ معيار  بھي عمومي طور پر کسي عمل کي وقعت کي تصديق کرسکتا ہے- يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور امام معصوم عليہ السلام کسي عمل کو خاص اور مصداق کے طور پر سراہے- اور اس کي وقعت کا تعين کرے- ظاہر ہے کہ خاص اور مصداقي تصديق عمومي تصديق اور تأئيد سے برتر و بالاتر ہے-

کسي عمل کي وقعت معلوم کرنے کے لئے تيسرا معيار عقل ہے بشرطيکہ اس عمل کو خدا يا معصوم (نبي يا امام) نے ممدوح يا مذموم قرار نہ ديا ہو کيونکہ ايسي صورت ميں عقل کو کوئي فيصلہ کرنے کا موقع نہيں ملتا- اور پھر عقل سليم ہميشہ شارع مقدس کي طرف سے آنے والے کسي بھي حکم کي موافقت کرتي ہے اور اس کے سامنے سرتسليم خم کرتي ہے-

-----------