سرچ
    سرچ کا طریقہ
    مرجع کا نام

احكام تقليد

احكام طہارت

احكام نماز

احكام نماز

روزے کے احکام

روزے کے احکام

احكام زکوٰۃ

احکام حج

خريد و فروخت کے احکام

احکام شرکت

احکام صلح

اجارہ (کرايہ ) کے احکام

احکام جعالہ

احکام مزارعہ

مساقات (آبياري ) کے احکام

احکام وکالت

قرض کے احکام

رہن کے احکام

ضامن بننے کے احکام

کفالت کے احکام

وديعت (امانت) کے احکام

عاريتاً دينے کے احکام

نکاح (شادي بياہ) کے احکام

طلاق کے احکام

غصب کے احکام

غصب کے احکام

جو مال انسان پالے اس کے احکام

جانوروں کے ذبح اور شکار کرنے...

جانوروں کے ذبح اور شکار کرنے...

کھانے پينے کي چيزوں کے احکام

نذر اور عہد کے احکام

قسم کھانے کے احکام

وقف کے احکام

وصيت کے احکام

ميراث کے احکام

احکام امر بالمعروف اور نہي عن...

دفاع کے مسائل و احکام

خاتمہ کے احکام

بعض مسائل جو اس زمانے ميں...

امام خميني کي خدمت ميں چند...

وہ اشخاص جو اپنے مال ميں خود...

حوالہ (ڈرافٹ) دينے کے احکام

1
اول عدد: یعنی امام جمعہ کو ملا کر (کم ازکم ) پانچ آدمی ہونے چاہئیں۔ ان سے کم میں نماز جمعہ نہ واجب ہوتی ہے اور نہ درست ہے۔ ایک قول کے مطابق کم از کم سات آدمیوں کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن شبہ یہ ہے کہ پانچ کافی ہیں۔ البتہ اگر سات یا اس سے زیادہ جمع ہوجائیں تو جمعہ کی فضیلت ظہر کی نسبت بڑھ جاتی ہے۔
دوم دو خطبے : یہ بھی اصل نماز کی طرح واجب ہیں۔ دو خطبوں کی بغیر نماز جمعہ منعقد نہیں ہوتی۔
سوم جماعت : پس نماز جمعہ فرادیٰ صحیح نہیں ہے۔
چہارم تین میل کے اندر دوسری نماز جمعہ منعقد نہ ہوتی ہو۔ اب اگر تین میل کا فاصلہ ہو تو دونوں جماعتیں صحیح ہیں اور دوری کا معیار دونوں نماز جمعہ کا جائے وقوع ہے نہ وہ شہر جن میں جمعہ منعقد ہو تی ہو۔ اس لئے بڑے بڑے شہروں میں جن کی لمبائی چند فرسخ ہے کئی نماز جمعہ منعقد ہوسکتی ہیں۔
2
اگر نماز جمعہ کے انعقاد کے لئے پانچ نفر جمع ہوجائیں پھر خطبہ کے درمیان یا بعد، نماز جمعہ سے پہلے متفرق ہوجائیں اور جانے والے پلٹ کر بھی نہ آئیں اور نہ وہاں اتنے آدمی اور ہوں جن سے واجب عدد پوری ہوجائے تو سبوں پر نماز ظہر معین ہوگی۔
3
اگر تعداد واجب خطبہ کے درمیان متفرق ہوجائیں اور پھر واپس پلٹ آئیں۔ یہاں اگر تفرق واجب بھر خطبہ سننے کے بعد ہو اہو تو ظاہر یہ ہے کہ خطبہ کو دوبارہ نہ پڑھا جائے، چاہے دیر سے واپس پلٹ آئیں ۔ اسی طرح اگر خطبہ کے بعد متفرق ہوجائیں اور واپس پلٹ کے آئیں (تو یہاں بھی خطبہ کا اعادہ کرنا ضروری نہیں ہے) اگر تفریق واجب بھر خطبہ سننے سے پہلے ہی واقع ہوجائے ، یہاں اگر تفرق نماز کو چھوڑ دینے کی نیت سے واقع ہوا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ ہر حالت میں پھر سے خطبہ پڑھا جائے۔ لیکن اگرکسی عذر کی وجہ سے گئے ہوئے ہوں مثلاً بارش وغیرہ۔ اب اگر اتنی دیر ہوجائے جس سے وحدت عرفیہ ختم ہوجاتی ہو تو پھر سے خطبہ کا پڑھنا علی الظاہر واجب ہے ہاں اگر وحدت عرفیہ باقی ہو تو اسی پر بنا رکھتے ہوئے نماز جمعہ پڑھ لی جائے گی اور صحیح ہے۔
4
اگر تعداد واجب میں سے بعض مامومین واجب بھر خطبہ سننے سے پہلے ہی اٹھ کر چلے جائیں اور زیادہ دیر کئے بغیر واپس آجائیں اور امام نے ان لوگوں کے جانے کے بعد سے خطبہ روک دیا ہو تو جہاں سے روکا ہے وہیں سے پھر شروع کردے اور اگر امام نے خطبہ کو نہ روکا ہو تو جہاں سے ان لوگوں نے نہیں سنا اتنے حصے کو دوبارہ پڑھ لے۔ البتہ اگر جانے والے اتنی دیر کرکے پلٹے ہوں جس سے خطبہ کی وحدت عرفیہ ختم ہوگئی ہو تو شروع سے خطبہ کا اعادہ کرنا چاہیے ۔ اسی طرح اگر جانے والے تو نہیں پلٹے لیکن ان کے بدلے کچھ دوسرے لوگ آگئے تب بھی امام کو خطبہ پھر سے پڑھنا چاہیے۔
5
اگر لوگوں کی تعداد نصاب جمعہ (یعنی پانچ آدمی) سے زیادہ ہو تو کچھ لوگوں کے چلے جانے سے کوئی اثر نہیں پڑے گا بشرطیکہ لوگوں کی تعداد نصاب بھر ہو۔
6
اگر امام کے نماز شروع کرنے کے بعد مامومین تکبیر سے پہلے چلے جائیں تو بظاہر جمعہ منعقد نہ ہوگا۔ اب رہی یہ بات کہ امام ظہر کی نیت کرلے یا بغیر ظہر کی نیت کئے اسی نماز کو ظہرکی طرح پڑھے ۔ بلکہ نماز جمعہ کے نہ ہونے سے وہ خود بخود ظہر ہوجائے گی اس لئے چار رکعت پڑھے تو اس میں اشکال ہے۔ احوط یہ ہے کہ ظہر کی نیت کرکے مکمل کرے۔ پھر دوبارہ نماز ظہر بھی پڑھے۔ اس سے بھی زیادہ احتیاط کی صورت یہ ہے کہ شروع کی ہوئی نماز کو تو جمعہ کی طرح پڑھے اس کے بعد ظہر کی نماز پڑھے۔ اگرچہ اس صورت میں اقرب یہ ہے کہ نماز جمعہ باطل ہے اس لئے اس کو چھوڑ کر نماز ظہر پڑھنا جائز ہے۔
7
اگر امام کے ساتھ چار آدمی نماز جمعہ شروع کردیں ، چاہے تکبیر ہی میں اقتدائ کی ہو (یعنی دو خطبے سننے کے بعد) تو نماز جمعہ کو مکمل کرنا بنابر مشہور واجب ہے ایک آدمی کے علاوہ سب ہی چلے گئے ہوں یا امام کے ساتھ دو آدمی رہ گئے ہوں یا امام چلا گیا ہو اور چاروں ماموم رہ گئے ہوں یا امام کے ساتھ دو ایک ان میں سے بھی چلے گئے ہوں اور چاہے ان لوگوں نے ایک رکعت یا اس سے بھی کم نماز پڑھی ہو لیکن مناسب نہیں کہ احتیاط کو ترک کیا جائے پس نماز جمعہ کو تمام کریں اور اس کے بعد ظہر کو بجالائیں۔ ہاں اگر دوسری رکعت کے بالکل آخر میں بلکہ دوسری رکعت کے رکوع کے بعد ہی دو ایک ماموم چلے گئے ہوں تو بعید نہیں ہے کہ نماز صحیح ہے لیکن پھر بھی اس کے بعد احتیاطاً ظہر پڑھ لے اور اس احتیاط کو ترک نہ کرنا چاہیے۔
8
دونوں خطبوں میں حمد واجب ہے اور اس کے بعد بنا بر احتیاط وجوبی اللہ کی ثناء و توصیف کی جائے اور احتیاط وجوبی یہ ہے کہ حمد لفظ اللہ سے ہو اگرچہ اقویٰ یہی ہے کہ حمد ہر اس عبارت سے کی جا سکتی ہے جس کا شمار اور ارشاد پہلے خطبہ میں علی الاقویٰ اور دوسرے میں علی الاحوط واجب ہے۔ نیز ایک چھوٹے سے سورہ کا پہلے خطبہ میں پڑھنا علی الاقویٰ اور دوسرے میں علی الاقویٰ اور دوسرے میں علی الاحوط واجب ہے۔ نیز ایک چھوٹے سے سورہ کا پہلے خطبہ میں پڑھنا علی الاقویٰ اور دوسرے میں علی الاحوط ضروری ہے۔ دوسرے خطبہ میں علی الاحوط الاولیٰ رسول خدا (ص) پر درود و سلام کے بعد آئمہ معصومین پر درود بھیجنا اور تمام مومنین و مومنات کے لئے استغفار کرنا بھی ضروری ہے۔ ویسے سب سے بہتر یہ ہے کہ مولائے کائینات (ص) یا اہل بیت علیہم السلام کے جو خطبے منقول ہیں ان میں سے کسی ایک خطبہ کو پڑھنا چاہئیے۔
9
حمد و صلوات کو علی الاحوط عربی میں ہی پڑھنا چاہئیے ۔ چاہے خطبہ پڑھنے والا اور سننے والے دونوں غیر عربی ہوں ۔ البتہ وعظ و غیرہ کو علی الاقویٰ غیر عربی میں بھی کہا جاسکتا ہے۔ بلکہ احوط تو یہ ہے کہ وعظ اور دیگر امور جو مسلمانوں کے مصالح سے متعلق ہوں سننے والوں ہی کی زبان میں ہوں اگر وہ مختلف زبانوں کے جاننے والے ہوں تو ان کی زبان میں کہا جائے۔ البتہ اگر تعداد واجبی تعداد سے زیادہ ہے تو واجبی تعداد سے زیادہ ہے تو واجبی تعداد والوں کی زبان پر اکتفائ جائز ہے لیکن احوط ہے یہی ہے کہ سننے والوں کی زبان میں خطبہ کہا جائے۔
10
خطبہ پڑھنے والے امام جمعہ کو اپنے خطبہ میں مسلمانوں کے دینی اور دنیاوی مصالح ممالک اسلامیہ وغیر اسلامیہ میں مسلمانوں کے لئے نفع بخش اور نقصان دہ حالات، مسلمانوں کے دینی اور دنیاوی ضرورتوں کو اور ایسے سیاسی اور اقتصادی مسائل جو براہ راست معاشرہ اسلامی کے استقلال اور حیثیت کے متعلق ہوں، ان کو مسلمانوں کی دوسروں کے ساتھ طرز معاشرت کو بیان کرنا چاہیے۔ اسی طرح ان کو دوسری ظالم اور سامراجی حکومتوں کے دخیل ہونے سے ڈرانا چاہیے۔
خصوصاً اس بات سے ڈرنا چاہئیے کہ وہ ان کے سیاسی و اقتصادی مسائل میں اس طرح دخل نہ دیں جس کے ذریعہ وہ مسلمانوں کا استحصال کرسکیں۔ ان تمام چیزوں کا ذکر خطبہ میں کرنا چاہیے۔ مختصر یہ ہے کہ حج و عیدین کی طرح نماز جمعہ اور اس کے خطبے بہت بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمان اپنے سیاسی اور غیر سیاسی جملہ مسائل سے بہت ہی زیادہ غفلت برتتے ہیں جبکہ اسلام وہ دین ہے جس کی ہر شان و حالت سیاست پر مبنی ہے اور اسلام کا دین سیاست ہونا ہر اس شخص پر ظاہر ہے جو اسلام کے سیاسی حکومتی، اقتصادی ، اجتماعی احکام پر ادنیٰ تدبر رکھتا ہو۔ پس وہ لوگ جو خیال کرتے ہیں کہ دین کو سیاست سے کوئی لگاو نہیں ہے اور یہ دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں وہ جاہل اور بے خبر ہیں اور یہ حقیقت میں نہ اسلام کی معرفت رکھتے ہیں اور نہ سیاست کو جانتے ہیں۔