خربوزے ۔ احمد ندیم قاسمی کا شہرہ آفاق افسانہ
وہ تھکا ماندہ روتا بسورتا سو گیا ۔ سوتے میں اس نے ایک خواب دیکھا کہ آسمان کے ستارے ہولے ہولے خربوزوں کی شکل اختیار کررہی ہیں۔ اور یہ آسمانی خربوزے جھم جھم کرتے اس کی جھولی میں آ گرتے، خود کٹ جاتے ہیں، بیج خود ہی الگ ہو جاتے ہیں، خود اس کے منہ میں اپنا گودا تراش کر ڈال دیتے ہیں اور چھلکے اچھل کرخود ہی پرے جا گرتے ہیں۔ اور اسکی ماں جس نے شام سے اس وقت تک چیخنے چلانے کے باوجود اس ایک خربوزے کے لئے دو پیسے نہیں دیئے تھے، کواڑ کا سہارا لئے بیٹھی مسکرا رہی ہے اوراس کے ہم جولی پست دیوار پر سے اپنے گرد آلود سر اٹھا کر تعجب اور شک سے دیکھ رہے ہیں کہ اچانک ایک خربوزہ اس کے سر پر آن گرا۔ اور وہ بلبلا کر اٹھ بیٹھا۔
’’ ہائے ماں خربوزہ۔ ‘‘
’’ تیرے دشمنوں کوموت آئے، تو کیا ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ گیا۔ یہ االلہ مارے خربوزے کیا آئے میرے لئے آفت آ گئی۔ چند روز ہوئے تجھے ایک گول گول پیلا پیلا خربوزہ نہیں خرید دیا تھا ۔۔۔۔ سوجا! ‘‘
اس نے اندھیرے میں ادھر ادھر آنکھیں جھپکا کر آسمانی خربوزے دیکھنا چاہے مگر بوڑھی بکری کے دھبے اور کبڑے نیم چپ چاپ سائے کے سوا اور اسے کوئی ایسی چیز نظر نہ آئی جس پر اسے خربوزے کا گمان ہو سکتا۔
ساری رات اسے خربوزے بھرے خواب نظرآتے رہے اور جب صبح کو اٹھا تو آنکھیں ملتا اپنی ماں کے پاس جا بیٹھا اور اس کے اٹھے ہو ئے گھٹنے پر اپنی ننھی سی ٹھوڑی رکھ کر مسکین آواز میں بولا۔
’’ ماں! ‘‘
اور وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر بولی۔ ’’ کیا ۔۔۔؟‘‘
’’ خربوزہ !‘‘ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
اور اس کی حقیقی آنکھیں سوتیلی ماؤں کی آنکھوں کی طرح چمک اٹھیں۔ اس نے ہونٹ کاٹ کر ننھے کے گال پرالٹے ہاتھ سے اس زور سے طمانچہ مارا کہ وہ لڑھک کر چولہے کے پاس جا گرا۔ زار و قطار روتا وہ اپنے گھر سے باہرنکل گیا اور سوچنے لگا ۔ اس دینا میں پہلے سے ہی میرا باپ نہ تھا، اب میر ی ماں بھی کوئی نہیں۔ میں تو کوئی آوارہ بھکاری چھوکرا ہوں جس گلی میں جاتا ہوں کتے کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں اور جس سے بات کرتا ہوں وہ تیوری چڑھا لیتا ہے ۔ بس آج کے بعد گھرنہیں جاؤں گا ۔
متعلقہ تحریریں:
مٹی کا بھوجھ
روشنی