امام حسن علیہ السلام کے واقعات بھی واقعات کربلا سے کچھ کم نہیں
(حصہ دوّم )
امام حسن علیہ السلام کے کردار پر نظر کی جائے تو اخلاق میں نبی کا انداز نظر آتا ہے ۔کردار میں علی علیہ السلام کا انداز۔ شجاعت میں ھاشم کا جلال ۔استقلال میں ابو طالب کے تیور ۔ ایمان و یقین میں عبدالمطلب کا نقشہ۔ خاندان کی عزت ۔ بزرگوں کی یادگار۔مذہب کا ذمہ دارا۔ اسلام کا خطیب۔صلح کا نقیب۔قرآن کامفسر۔اُمت کا مصلح۔کعبہ کا محافظ۔ اور سیرت رسول کا ایسا ورثہ دار کہ کہ ہجوم ِ مصائب میں طعن و طنز کے باوجود حدیبیہ کی تاریخ دہرا کر صلح کر لی اور اسلام کو ایک بڑے خطرے سے بچا لیا۔ قدرت کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ دونوں کی تاریخ وفات کو ایک کر دیا ۔ یعنی ۸۲ صفر۔ جس تاریخ کو پہلا مصلح دنیا سے گیا تھا اسی تاریخ کو دوسرا شہزادہ صلح بھی دنیا سے رخصت ہوا۔
قرآن مجید کی آیتیں اور مرسل اعظم کے ارشادات امام حسن کی عظمت کی گواہی دے رہے ہیں ۔ آیة تطہیر عصمت کا اعلان کر رہی ہے۔ آیت مباھلہ صداقت کا اعلان کر رہی ہے۔ آیت صلح کردار پر روشنی ڈال رہی ہے ۔ اور سورة دہر آپ کی سخاوت کا قصیدہ پڑھ رہی ہے ۔امام حسن امام معصوم ہیں ان کا ہر قول و فعل ، حرکت و سکون میزان عصمت میں تلا ہوا ہے۔، اور اعتراض سے بالا تر ہے۔ مستحق اتباع و تحسین ہے ممکن ہے کہ ہماری سمجھ میں کسی فعل کی مصلحت نہ آتی ہو۔
آئمہ علیہم السلام کے علم اللہ کے خاص عطا کردہ تھے انہوں نے کسی اسکول میں نہیں پڑھا تھا۔ ایک دفعہ بادشاہ روم نے حاکم ِ شام سے دو سوال کے جواب مانگے تھے وہ عاجز آگیا تو اس نے مسئلے کو امام حسن علیہ السلام کے سامنے پیش کیا اور آپ نے بتا دیا کہ زمین پر وہ جگہ جو آسمان کے ٹھیک وسط میں واقع ہے وہ پشت ِ خانہ ءکعبہ ہے ۔ اور زمین کا وہ خطہ جس پر سورج کی روشنی صرف ایک بار پڑی وہ نیل کی گہرائی ہے جس پر ایک دفعہ حضرت موسیٰ کے گزرتے ہوئے سورج کی روشنی پڑی تھی اور اس کے بعد پھر دریا حائل ہو گیا۔
امام حسن علیہ السلام کا دستر خوان مدینہ منورہ میں بہت مشہور تھا ۔ ایک شخص مہمان آیا اورجب وہ کھانے بیٹھا تو ایک لقمہ کھاتا تھا اور ایک لقمہ بچا کر رکھ لیتا تھا ۔امام نے فرمایا تو صاحب عیال ہے َ؟ اس نے کہا۔ نہیں ۔ میں نے مسجد میں ایک شخص کو جو کی سوکھی روٹیاں کھاتے دیکھا ہے چاہتا ہوں کہ اس کی بھی کچھ مدد کر دوں۔ امام نے فرمایا ۔ بھئی وہ میرے بابا علی مرتضےٰ ہیں ۔ان کی زندگی کا یہی معمول ہے ۔ہم اہل بیت جو دنیا کو کھلاتے ہیں وہ اور ہوتا ہے اور جس پر خود اپنی زندگی گزارتے ہیں وہ اور ہوتا ہے۔ہمارے لئے نعمتوں کا دسترخوان اللہ نے آخرت میں بچھایا ہے۔
ایک دفعہ معاویہ نے مدینہ آ کر اعلان کیا کہ لوگ بادشاہ کو آ کر سلام کریں اور بادشاہ سب کو انعام و اکرام تقسیم کرے گا۔ یہانتک کہ امام حسن علیہ السلام کو اس کے کارندے مجبور کرکے اس کے پاس لے آئے۔ امام حسن جب پہنچے تو اس نے ارکان سلطنت سے کہا کہ حسن اس لئے دیر سے آئے ہیں کہ میرا خزانہ ختم ہو جائے۔ لہذا میں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ صبح سے سارا دن جتنا مال ،سارا اہل مدینہ کو انعام دیا ہے اس سے زیادہ ان کو دوں۔ یہ کہہ کر اس نے خزانہ منگوایا اور کہا یہ آپ کا حصہ ہے۔ امام جب جانے لگے تو معاویہ کے ایک ملازم نے آپ کی جوتیاں سیدھی کر دیں ۔مولا نے حکم دیا کہ یہ سب دولت میری جوتی سیدھی کرنے کے عوض اس ملازم کو دے دی جائے۔ مولا کی سخاوت پر حضرت معاویہ کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔
https://www.matamdari.com
متعلقہ تحریریں:
زندگي نامہ حضرت امام حسن عليہ السلام
امام حسن(ع) اوروحی کی ترجمانی