صفحه اصلی تبیان
شبکه اجتماعی
مشاوره
آموزش
فیلم
صوت
تصاویر
حوزه
کتابخانه
دانلود
وبلاگ
فروشگاه اینترنتی
بدھ 11 دسمبر 2024
فارسي
العربیة
اردو
Türkçe
Русский
English
Français
تعارفی نام :
پاسورڈ :
تلاش کریں :
:::
اسلام
قرآن کریم
صحیفه سجادیه
نهج البلاغه
مفاتیح الجنان
انقلاب ایران
مسلمان خاندان
رساله علماء
سروسز
صحت و تندرستی
مناسبتیں
آڈیو ویڈیو
اصلی صفحہ
>
اردو ادب و ثقافت
>
اردو ادب و تہذیب
1
2
3
4
نمود صبح
ہو رہی ہے زیر دامان افق سے آشکار/ صبح یعنی دختر دوشیزۂ لیل و نہار
گورستان شاہی
آسماں ، بادل کا پہنے خرقۂ دیرینہ ہے/ کچھ مکدر سا جبین ماہ کا آئینہ ہے
دو ستارے
آئے جو قراں میں دو ستارے/ کہنے لگا ایک، دوسرے سے
قرآن و ادب
قرآن رب کى خاص عنايت کا نام ہے/ قرآن نظم و ضبط شريعت کا نام ہے
ضرب المِثل اشعار (16)
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ/ محفل میں اِس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
ضرب المِثل اشعار (15)
زندگی میں دو ہی گھڑیاں مجھ پہ گزری ہیں کٹھِن/ ’اک تیرے آنے سے پہلے، اک تیرے جانے کے بعد‘
ضرب المِثل اشعار (14)
ذکر جب چھِڑ گیا قیامت کا/ بات پہنچی تیری جوانی تک
ضرب المِثل اشعار (13)
داورِ حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ/ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
ضرب المِثل اشعار (12)
خرد کا نام جنوں پڑگیا، جنوں کا خرد/ جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے
ضرب المِثل اشعار (11)
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں/ ’بچّے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے‘
ضرب المِثل اشعار (10)
پھول تو دو دن بہارِ جاں فزا دِکھلا گئے/حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بِن کھِلے مُرجھا گئے
ضرب المِثل اشعار (9)
بجا کہے جسے عالم اُسے بجا سمجھو/ زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو‘
ضرب المِثل اشعار (8)
اے ذوق دیکھ دُخترِ رَز کو نہ منہ لگا/ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
ضرب المِثل اشعار(7)
اُن کا جو کام ہے وہ اہلِ سیاست جانیں/ ’میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے‘
ضرب المِثل اشعار (6)
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے/ ’گفتار کا یہ غازی تو بنا کِردار کا غازی بن نہ سکا‘
ضرب المِثل اشعار (5)
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت/ دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قباء دیکھ
ضرب المِثل اشعار (4)
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے/ ’مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے‘
ضرب المِثل اشعار (3)
/ گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے‘لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
ضرب المِثل اشعار(2)
زندگی زندہ دلی کا نام ہے‘/مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
ضرب المِثل اشعار
آ عندلیب مِل کے کریں آہ و زاریاں/ تُو ہائے گُل پُکار میں چِلّاؤں ہائے دِل
مضمون نگاری
کسی متعین موضوع پر اپنے خیالات اور جذبات کا تحریری اظہار مضمون ہے۔ مضمون کے لۓ موضوع کی کوئی قید نہیں
انشائیہ نگاری
انشائیے کے سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ ناول، افسانہ یا مضمون کے برعکس انشائیے کا انداز غیر رسمی ہوتا ہے
دور حاضر میں اقبال کے فلسفہ خودی کی اہمیت ( حصّہ ششم )
سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد دنیا میں واحد سپر پاور امریکہ ہی رہ گئی اور اس نے بڑی عیاری کے ساتھ مسلم حکمرانوں کے خلاف نیا میدان جنگ کھول دیا
دور حاضر میں اقبال کے فلسفہ خودی کی اہمیت ( حصّہ پنجم )
اقبال کا نظریہ خودی برصغیر کے حالات کے تقاضوں کے عین مطابق تھا اور یہ نظریہ ردعمل کے طور پر پیدا ہوا تھا پروفیسر عثمان ایک مثال پیش کرتے ہوۓ لکھتے ہیں
دور حاضر میں اقبال کے فلسفہ خودی کی اہمیت ( حصّہ چہارم )
اقبال کے خودی کے فلسفہ کا آغاز اسرار خودی سے ہوا جو 1915 عیسوی میں شائع ہوا جس کے بعد برصغیر کے صوفی حلقوں میں اس کے خلاف بہت مخالفت شروع ہو گئی
دور حاضر میں اقبال کے فلسفہ خودی کی اہمیت ( حصّہ سوّم )
علامہ اقبال نے اپنی جوانی کا ایک حصّہ یورپ میں گزارا اور یوں ان کی فکری و شعری کاوشوں پر مشرقی اثرات کے ساتھ ساتھ مغربی اثرات کو بھی واضح طور پر محسوس کیا جاتا ہے ۔
دور حاضر میں اقبال کے فلسفہ خودی کی اہمیت ( حصّہ دوّم )
اور اس طرح بندے کو اپنے عجز اور کمزوری کا حقیقی ادراک ہوجاتا ہے جو کہ بندہ کے لیے اپنے رب کے سامنے عاجزی و تذلل کا باعث بنتا ہے اور یوں بندہ اپنے رب کے سامنے عاجز ہوکر جھکتا چلا جاتا ہے
دور حاضر میں اقبال کے فلسفہ خودی کی اہمیت
فلسفہ خودی درحقیقت اقبال کی فلاسفی کا بنیادی نقطہ ہے ۔ دنیا کے بہت سے محققین و دانشوروں نے اقبال کے فلسفہ خودی پر بڑی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے لیکن یہ فلسفہ اتنا گہرا ہے کہ اب بھی اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے
جدید شاعری میں کربلا کا تذکرہ
کربلا ، امام حسین ع ، حسینیت اور مصائب کربلا ، بلا تفریق مسلک و مذھب ہماری زندگیوں کا لازمی جزو بن چکے ہیں ۔
دور حاضر میں پیش آنے والی تبدیلیاں (پانچواں حصّہ)
مذکورہ کہانیاں ظاہر کرتی ہیں کہ گلوبلائزیشن کی زد میں ہمارا گاؤں بھی آ گیا ہے۔ شہر میں تو مال بن چکا تھا۔ قصبہ اور گاؤں میں بھی صارفیت اور نفع کا دیو سرایت کرنے کے در پہ ہے۔
دور حاضر میں پیش آنے والی تبدیلیاں (چوتھا حصّہ)
صدیق عالم کی کہانیوں میں بھی بنگال کو مرکزیت حاصل ہے اور وہ عموماً قصہ گو کی طرح قصہ سناتے ہیں۔
دور حاضر میں پیش آنے والی تبدیلیاں (تیسرا حصّہ)
محمد بشیر مالیر کوٹلوی خوب لکھ رہے ہیں۔ ۲۰۰۷ء میں ۲۳؍ افسانوں کا مجموعہ چنگاریاں منظرِ عام پر آیا۔ ،زندہ در گور، قسم، بدبو، خریدار، ایسی کہانیاں ہیں جو قاری کو جھنجھوڑتی ہیں۔
دور حاضر میں پیش آنے والی تبدیلیاں (دوسرا حصّہ)
نور الحسین کا افسانہ ایک عذاب اور (ایوان اردو، اگست ۲۰۰۸ء) گڑھی سے اُبھرتا سورج (سب رس، جولائی ۲۰۱۰ء) عصر حاضر کی حسّیت کو وسیع پیمانے پر پیش کرتا ہے۔
دور حاضر میں پیش آنے والی تبدیلیاں
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا ہے کہ بہت لکھا جا رہا ہے مگر ان میں اس دہائی کی حسّیت خال خال نظر آتی ہے مگر جن افسانوں میں یہ Sensbilityکچھ ہے و ہ ہیں۔
بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا / رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا
اس شعر میں یہ اشارہ ہے کہ بزم شاہی میں جو گنجینۂ گوہر ہے تو فقط اسی سبب سے ہے کہ میرے اشعار کا دفتر وہاں کھلا ہے اور یہ دُعا ہے کہ الٰہی در کو کھلا رکھ ، اس کے معنی یہ ہیں کہ آباد رکھ اور اس کا فیض جاری رکھ ۔
21 ویں صدی کے ابتدا میں اردو افسانہ
اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ مخلتلف ادوار میں ادبی تدابیر اور مشاہدات ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں ۔
ایک ایک قطرئے کا مجھے دینا پڑا حساب / خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا
حساب دینا پڑا یعنی آنکھوں سے خون بہانا پڑا گویا خونِ جگر اُس کی امانت تھا ۔
شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا / شعلۂ جوالہ ہر یک حلقۂ گرداب تھا
یعنی ابر کا زہرہ آب تھا اور جو گرداب اس میں پڑتا تھا وہ شعلہ جوالہ تھا ، یہ فقط میرے سوزِ دل کی تاثیر تھی ۔
محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا / یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
یعنی جس چیز کو تو عالم حقیقت کا حجاب سمجھتا ہے وہ رباب کا ایک پردہ ہے جس سے نغمہ ہائے رازِ حقیقت بلند ہیں مگر اس کے تال سر سے تو خود ہی واقف نہیں لطف نہیں اُٹھاسکتا ۔
بیسویں صدی کی آخر دو دہائیوں میں اُردو ناول کے موضوعات و رجحانات (چھٹا حصّہ)
قصور لوگوں کا نہیں ان کا ہے جنہوں نے انہیں بے بس کردیا۔ ایک صدی سے ملک خانہ جنگی کا شکار ہے۔ کھبی مغلوں کے شہزادے آپس میں لڑتے مرتے رہے پھر مرہٹے، سکھ، گورے عام آدمی نےسب دکھ اٹھایا ہے وہ کس طرح دہلی کے بادشہ کے لئے کچھ قربان کرسکتے ہیں
بیسویں صدی کی آخر دو دہائیوں میں اُردو ناول کے موضوعات و رجحانات (پانچواں حصّہ)
بانو قدسیہ کا راجہ گدھ (۱۹۸۱ء) موضوع کے لحاظ سے تو منفرد ہے لیکن زبان بھی بے حد رواں اور سلیس ہے بانو نے ثقیل الفاظ سے اجتناب برتا ہے۔
بیسویں صدی کی آخر دو دہائیوں میں اُردو ناول کے موضوعات و رجحانات (چوتھا حصّہ)
عورت اُردو ناول کا مخصوص موضوع رہا ہے معاشرے میں اس کے ساتھ ہونیوالی نا انصافی اور ظلم و ستم کو بہت سے ناول نگاروں نے بیان کیا ہے۔
سلام
سلام اسے کہ اگر بادشا کہیں اُس کو/ تو پھر کہیں کہ کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو
ز حالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں
ز حالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں/ کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں
بیسویں صدی کی آخر دو دہائیوں میں اُردو ناول کے موضوعات و رجحانات (دوسرا حصّہ)
مارشل لا کے اس پس منظر کا جائزہ لینے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ سیاسی طور پر کبھی بھی مستحکم نہیں رہا۔ مارشل لاء کے اثرات آہستہ آہستہ سرایت کرکے معاشرے کی اندرونی پرت تک پہنچ گئے۔
بیسویں صدی کی آخر دو دہائیوں میں اُردو ناول کے موضوعات و رجحانات
اُردو ناول میں ارتقائی تبدیلیوں کی بڑی وجہ سماج میں معاشرتی، معاشی اور سیاسی تغیرات ہیں۔ اگر ناول کی ابتداء سے بات کریں تو ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی برطانوی راج، بعد ازاں تحریک پاکستان کی جدو جہد، قیام پاکستان اور ایک خون آشام ہجرت ہے
قومیت کی تعمیر میں زبان کی اہمیت (حصّہ پنجم)
موجودہ اردو میں ہر دور اور علاقے کے لسانی اثرات موجود ہیں ان کی موجودگی زمانے کے ساتھ ساتھ ایک فطری انداز کی حامل ہے انہیں زبردستی اردو کا حصہ نہیں بنایا گیا
قومیت کی تعمیر میں زبان کی اہمیت (حصّہ چهارم)
بلاشبہ پاکستانی ادب پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کے ادب پر مشتمل ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس میں سب سے نمایاں، وسیع اور منفرد اظہار اردو زبان ہی کے وسیلے سے ہوا ہے
قومیت کی تعمیر میں زبان کی اہمیت (حصّہ سوّم)
قومیت کی تعمیر میں ادب کا خاص کردار ہوتا ہے ادب کسی بھی زبان، تہذیب ملک اور زمانے کے بہترین افکار کا تحریری منظرنامہ ہوتا ہےاور اس زبان، تہذیب ملک اور زمانہ کا پورا ماحول اس کے اندر بولتا ہے۔
قومیت کی تعمیر میں زبان کی اہمیت (حصّہ دوّم)
ہمیں ماننا پڑے گا کہ یہ زبان ہندوستان میں مسلمانوں کے داخلے اور توطن گزینی کا نتیجہ ہے اور جوں جوں اس کی سلطنت اس ملک میں وسعت اختیار کرتی گئی
1
2
3
4
اصلی صفحہ
ہمارے بارے میں
رابطہ کریں
آپ کی راۓ
سائٹ کا نقشہ
صارفین کی تعداد
کل تعداد
آن لائن