• صارفین کی تعداد :
  • 3355
  • 11/11/2011
  • تاريخ :

رہبر كى اطاعت كى حدود

ایران

ولايت فقيہ پر مبنى نظام ميں لوگ كن امور ميں رہبر كى اطاعت كرنے كے پابند ہيں اور ولى فقيہ كى اطاعت كا دائرہ كس حد تك ہے؟ كيا بعض امور ميں اس كى مخالفت كى جا سكتى ہے؟ اور كيا اس كے فيصلے يا نظريئے كو رد كرسكتے ہيں؟اس سوال كے جواب سے پہلے دو تمہيدى مطالب كى طرف توجہ دينا ضرورى ہے- پہلا يہ كہ ولايت فقيہ پر مبتنى سياسى نظام ميں رہبر كا كيا مقام ہے؟ اس كى وضاحت كى جائے- اس كے بعد مختلف قسم كى مخالفتوں اور عدم اتباع كى تحقيق كى جائے-

نظام ولايت ميں رہبر كا مقام

قرآن كريم ميں اللہ تعالى خود كو ولى يكتا اور يگانہ و بلا اختلاف حاكم قرار ديتا ہے- وہ انسانوں پر حقيقى ولايت ركھتا ہے، اور قانون گذارى اور امر و نہى كا حق فقط اسى كو حاصل ہے ارشاد خداوندى ہے:

''فاللہ ہو الولي''(1)

پس خدا ہى ولى ہے-

''ان الحكم الا للہ''(2)

حكم فقط خدا كى طرف سے ہے-

''ما لكم من دون اللہ من وليّ'' (3)

اللہ كے سواتمہارا كوئي ولى نہيں ہے-

''انما وليكم اللہ'' (4)

تمھارا ولى فقط خدا ہے-

''الا لہ الخلق و الامر'' (5)

خبردار اسى كيلئے خلق اور امر ہے-

ان مطالب كو اگر ''اصل عدم ولايت ''كے ساتھ ملا كر ديكھيں تو يہ نتيجہ نكلتا ہے كہ كوئي شخص بھى كسى دوسرے پر ولايت نہيں ركھتا ، اور اسے حكم دينے يا اس كيلئے قانون بنانے كا حق نہيں ركھتا- يہ مقام و منزلت فقط خدا كو حاصل ہے- ہاںاگر حقيقى ولايت كا مالك يعنى خدا ايك يا چند افراد كو يہ ولايت بخش دے اور حق اطاعت عطا كردے تو پھر ان مقرر كردہ افراد كى ولايت بھى معتبر اور مشروع ہوگى - قرآن و احاديث كى رو سے اللہ تعالى نے يہ ولايت معصومين كو عطا كى ہے- اور ''ولايت انتصابي'' كى ادلّہ كے لحاظ سے ائمہ معصومين كى طرف سے عادل فقہا اس ولايت كے حامل ہيں-لہذا زمانہ غيبت ميں علماء كے اوامر و نواہى قابل اعتبار و قابل اطاعت ہيں- اس لحاظ سے فقيہ كى ولايت رسول خدا (ص) اور ائمہ اہلبيت كى ولايت كى ايك كڑى ہے- اور رسولخدا (ص) اور ائمہ كى ولايت كا سرچشمہ خداوند كريم كى ولايت و حاكميت ہے-

ولايت فقيہ كى نصوص اور ادلّہ كا نتيجہ يہ ہے كہ '' فقيہ عادل '' حكومت كرنے كا حق ركھتا ہے اور سياسى ولايت كا حامل ہونے اور ائمہ معصومين كى طرف سے منصوب ہونے كى وجہ سے امر و نہى اور مسلم معاشرہ كے اجتماعى اور عمومى قوانين بنانے كا حق ركھتا ہے اور اس كے فرامين كى اطاعت واجب ہے-

فقيہ كى ''ولايت انتصابي'' كى بنياد پر باقى حكومتى اداروں كى مشروعيت بھي'' ولى فقيہ'' كے حكم كى بنا پر ہوگي- فقيہ كى سياسى ولايت كى مشروعيت حكومتى ڈھانچے كے باقى اداروں كى مشروعيت كا سرچشمہ ہے كيونكہ اگر ولى فقيہ كا نفوذ نہ ہو تو باقى تمام حكومتى اداروں اور وزارتوں كى '' مشروعيت'' بحران كا شكار ہوجائے گى - مثال كے طور پر كچھ وزراء كابينہ ميں كوئي قرار داد منظور كرتے ہيں، پارليمينٹ ميں كوئي قانون پاس كرتے ہيں، يا كسى معاملہ ميں اپنے اختيارات استعمال كرتے ہيںتو سوال يہ ہے كہ پارليمينٹ ميں منظور شدہ قانون كے ہم كيوں پابند ہوں ؟ كيوں حكومتى فرامين پر عمل كريں؟ كس بنياد پر ملك كے انتظامى اور قضائي قوانين كا احترام كريں؟ اور كس دليل كى رو سے ان كى اطاعت كريں؟

قرآنى آيات كى روسے قانون بنانے اور فرمان دينے كا حق خدا اور ان افراد كو حاصل ہے جو اس كى طرف سے ولايت ركھتے ہوں-

سورہ نساء كى آيت 59 ميں ارشاد خداوندى ہے-

''اطيعوا اللہ و اطيعوا الرسول و اولى الامر منكم ''

اللہ كى اطاعت كرو اور رسول اور جو تم ميں سے صاحبان امر ہيں ان كى اطاعت كرو-

لہذا ان كے علاوہ كوئي شخص امر و نہى كرنے اور قانون بنانے كا حق نہيں ركھتا-مگر جب اس كى ولايت اور اختيار ان امور ميں ثابت ہوجائے تو پھر اسے يہ اختيار حاصل ہوجائے گا-

پس كچھ لوگوں كا بعض افراد كى را ے سے پارليمينٹ ميں پہنچ جانا ان كے قانون وضع كرنے اور امر و نہى كرنے كو شرعى جواز عطا نہيں كرتا - راۓ  دينے اور نہ دينے والوں كيلئے ان كى اطاعت اور ان كے بنائے ہوئے قوانين كو تسليم كرنے كيلئے كوئي شرعى وجوب نہيں ہے- كيونكہ لوگوں كى را ے اس شخص كو حكمرانى كے امور ميں شرعى ولايت كے منصب كا حامل قرار نہيں ديتي- مگريہ كہ شرعى ولايت كا حامل شخص كسى كو قانون گذارى اور امر و نہى كا حق دے دے-

يہ بحث سياسى اقتدار كے سب اركان ميں جارى ہے- مثلا عدليہ ميں اگر قاضى اس شخص كى طرف سے مقرر كيا گيا ہے جس كى ولايت مشروع ہے تو پھر اس قاضى كا فيصلہ بھى شرعى حيثيت ركھتا ہے- اسى وجہ سے ہمارى روايات ميں اُن افراد كى حكومت اور ولايت كو'' ولايت جور اور ولايت طاغوت'' سے تعبير كيا گيا ہے جو اسلامى معاشرہ كى سرپرستى كى شرائط كے حامل نہيں ہيں اور ان كے حكّام اور عمّال كو ظالم اور طاغوت كے كارندے كہا گيا ہے-

بنابريں شيعوں كے سياسى نظام ميں ولايت فقيہ كو بہت بڑى اہميت حاصل ہے- كيونكہ سياسى نظام كے تمام اركان كى مشروعيت كا سرچشمہ يہى ہے- اسى نظريہ كى بناپر اسلامى جمہوريہ كے اساسى قانون ميں جو كہ ولايت فقيہ پر مبتنى ہے بنيادى قانون كى تصويب اور عوام كى را ے سے منتخب ہونے والے صدر كيلئے رہبر كى تائيد حاصل كرنا ضرورى ہے- صرف يہ كہ كچھ افراد نے مل كر قانون بناديا اور لوگوں نے بھى اس كے متعلق مثبت را ے دے دى اس سے شرعى طور پر اس كى اطاعت كا لازم ہونا ثابت نہيں ہوتا - مگر يہ كہ '' صاحب ولايت شرعي'' اس كى تائيد كردے اور اس كے شرعى ہونے كى گواہى دے دے- اسى طرح صدر كے اوامر و نواہى كى مشروعيت رہبر كى تائيد سے مربوط ہے كيونكہ صدر كيلئے لوگوں كى را ے اسے شرعى ولايت عطا نہيں كرتي-


متعلقہ تحريريں:

تہذيبي انقلاب کي اہميت