• صارفین کی تعداد :
  • 4338
  • 8/22/2011
  • تاريخ :

ضحّاک کي کہاني

ضحّاک کی کہانی

افرادِ قِصّہ!

ضحاک - ايران کا ايک ظالم بادشاہ !جس نے شہنشاہ جمشيد کي حکومت کا تخت اُلٹ کر ،ايران پر قبضہ جماليا-

قحطان - ضحاک کا وزير-

مہرو - جمشيد کي لڑکي- جسے اِنقلاب زمانہ نے ضحاک کي خادمہ بناديا-

خوب چہر- (ظاہر ميں) ضحاک کي لڑکي!جمشيد کي دُوسري لڑکي کے بطن سے!(حقيقت ميں ) جمشيد کي پوتي!

پرويز- (ظاہر ميں ) قباد زميندار کا لڑکا اور ضحاک کا خادم ( حقيقت ميں ) جمشيد کا پوتا- اور خوب چہر کا عموزاد بھائي-

فرہاد - جمشيد کے متعلقين ميں سے ايک شخص اور ضحاک کا داروغہ محلّات-

کاوہ - ايک لوہار - ( جس نے ايران کو ضحاک کے پنجہ سے آزاد کيا)

مہربان- کاوہ کي بيوي

بہرام و رستم - کاوہ کے لڑکے-

قباد- خسرو- نوذر- يزد- فريبرز- شيرويہ - کا شتکار

موبدوں کا سردار - سب سے بڑا موبد- مذہبي پيشوا-

ضحاک کے خادم -

موبدوں کي جماعت - بہت سے مذہبي پيشوا-

لڑکے اور ايک ديہاتي-

پہلا منظر

ضحاک کےمحل ميں، ديوانِ خاص کا نقشہ نظر آرہا ہے- صدر(درميان) ميں ايک تخت بچھاہے- دائيں بائيں طرف2 دو،دريچے جھانک رہے ہيں- ديواروں پرسانپوں کي ہيبت ناک تصويريں جھلک رہي ہيں- پردہ اُٹھتے ہي فرہاد دربار کي ترتيب ميں مشغول نظر آتا ہے-

پہلا نظارہ

(فرہاد_______ تنہا)

فرہاد- ( دير تک سوچنے اور تخت پر نظر جمائے رہنے کے بعد ) انقلاب! آہ! انقلاب!!-------ايک دن تھا کہ اِسي تخت پر جمشيد بيٹھتا تھا!(ديواروں کي طرف نظراُٹھا کر ) يہ ديواريں طرح طرح کے گُل بُوٹوں سے جڑي ہوئي تھيں! اِن پر آفتاب کے طلوع وغروب کے نقشے جگمگاتے تھے!ہاں، يہ صنعت کي حسين گُلکاريوں کا پرستان بن رہي تھيں------ آج اِن پر، سانپوں کي، اُڑن ڈراؤنےسانپوں کي تصويريں نظر آرہي ہيں، جو اللہ کي مخلوقات ميں سب سے زيادہ مُہلک اور مُوذي ہيں ( کسي قدر ڈرتي ہوئي نگاہوں سے سانپوں کي طرف ديکھ کر ) کيسا مسکين جانور!!------ ميں جتنااِن کي طرف ديکھتا ہوں! مجھے وحشت ہوتي ہے!------ کاش يہ بلاصرف ديکھنے ہي پرٹل جاتي!------ مگر افسوس!ہم تو اِن مردود کيڑوں کے آگے سر جُھکانے، بلکہ سجدہ کرنے پر مجبور ہيں ہم!------ہم!جو کبھي جمشيد کے مذہب پر فخر کيا کرتے تھے! ہم!جو کبھي ايک سرا پا نُور بادشاہ کے وسيلہ سے، اُس پاک خُدا کي پرستش کرتے تھے، جو تمام کائنات کا خالق ہے! وہ خُدا! جو آفتاب کي شکل ميں تمام موجودات کو جگمگاتا اور حيوانات اور بناتات کو زندگي بخشتا ہے! ہم! جو کبھي، نوروز کے دن ،جبکہ پُھولوں کي مہک! اور سبزہ کي لہک! ہمارے دل و دماغ کو مست کر ديتي تھي! نہروں کے کنارے اور باغوں کے درميان، جمشيد کے بتائے ہوئے مذہبي بھجن گاتے تھے ہم! آج اِن ہيبت ناک کيڑوں کي عبادت کرنے پر مجبور ہيں------( پھر سانپوں کي تصويروں کي طرف ديکھ کر ) اِن کي پرستش کروں؟؟؟------نہيں! کبھي نہيں!! ميں اُس خدا کو چھوڑ کر ،جو خالقِ کائنات ہے!اِن مکروہ کيڑوں کي عبادت نہيں قبول کر سکتا! آفتاب کے جگمگاتے ہوئے، نُور سے مُنہ موڑ کر، اِن ہولناک جانوروں کے آگے سر نہيں جُھکا سکتا!------( کچھ دير سوچنے کے بعد ) مگر آہ! ميں تو دُنيا کي نظروں ميں، اِن کي عبادت کرنے! اور جمشيد پر لعنت بھيجنے پر مجبور ہوں!------ آخر! مجبور کرنے والي چيز کون سي ہے؟------ ميرا دل ؟ ميري زندگي؟ ميرا نفع؟  ميري آل اولاد-----؟ نہيں ------نہيں! ميں اِن سب! ميں اِن سب کو قربان کر سکتا ہوں!------ اِن ميں سے کوئي بھي ميرے ضمير کو دھوکا نہيں دے سکتا! کوئي بھي مجھے اِن ملعون کيڑوں کي جھوٹي پرستش پر مجبور نہيں کر سکتا!------ مگر ايک فرض!------آہ! ايک فرض! جسے ميرے سوا دُنيا ميں کوئي انجام نہيں دے سکتا!------ايک فرض! جس پر سارے وطن کي سلامتي کا دار و مدار ہے! ايسا فرض! کہ اگر اِس کے راستہ ميں ميري جان بھي قربان ہوجائے تو بھي کم ہے! يہي فرض ہے جس نے ميري غيرت و حميّت کي آگ کو ، ٹھنڈا کر رکھا ہے------ ( اپني ڈاڑھي کے ہاتھ لگا کر ) افسوس! ميري عُمراسّي کے قريب پہنچ گئي! اگر آج کل ميري آنکھ بند ہوگئي! ميں مرگيا ------!تو کيا ہوگا؟ اِس فرض کا کيا ہوگا؟؟ (کمال خود رفتگي سے دو زانو ہو کراور دُعا کے ليے ہاتھ اُٹھاکر) او ميرے خُدا! او جمشيد کے معبود!! ميري عمر زيادہ کر دے! اور اِس مقدس فرض کے پورا ہونے تک مجھے زندگي سے محروم نہ کر!------( خوش ہوکر ) ہاں! ہاں! ميں زندہ رہوں گا! زندہ رہوں گا! اور اپنا فرض پورا کروں گا!------ يہي فرض ہے، جس کے کارن ميں نے جمشيد کے خاندان سے بيوفائي کي- حالانکہ اُس کا ميں نے نمک کھاياہے! يہي فرض ہے ! جس نے مجھے جمشيد کا پاک مذہب چھوڑ دينے پر مجبور کر ديا! حالانکہ ميں اُس کا نام ليوا ہوں! اِسي فرض کي خاطر! مجھے اِن زہريلے کيڑوں کي بناوٹي پرستش کرني پڑي، جن سے ميں ہزار بار! لاکھ بار نفرت کرتا ہوں ! الغرض وہ فرض!جس نے مجھے ايسے ايسے گناہوں کے ارتکاب پر مجبور کيا ہے------کيا ميں اُسے پوُرا نہيں کر سکوں گا------؟ نہيں اُس خدا کا اِنصاف، جس کي ميرا دل ہميشہ عبادت کرتا رہا ہے! اِس بات پر کبھي راضي نہ ہوگا! يقينا ميں زندہ رہوں گا! اور اپنا فرض پورا کروں گا!------!!

(بائيں طرف کي کھڑکي سے پرويز داخل ہوتا ہے - ايک جڑاؤ عصا اُس کے ہاتھ ميں ہے)

تحریر: اختر شیرانی


متعلقہ تحريريں :

ہائے ر ے تکيہ کلام (حصّہ دوّم)

ہائے ر ے تکيہ کلام

ايک چيونٹے کي کہاني 

سہيلي کي مدد

محنت کا پھل