• صارفین کی تعداد :
  • 4120
  • 8/19/2008
  • تاريخ :

یورپ کی مساجد (2)

بنیا باشی مسجد

بنیا باشی مسجد

بنیا باشی مسجد (بلغاروی: Баня баши джамия یعنی بنیا باشی جامعہ، ترکی: Banya Başı Camii) بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں واقع ایک مسجد ہے۔ یہ یورپ کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے جو 1576ء میں اس وقت تعمیر کی گئی جب صوفیہ عثمانی سلطنت کے زیر نگیں تھا۔ یہ مسجد عثمانی دور کے معروف معمار سنان پاشا نے تعمیر کی۔ اس مسجد کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ قدرتی گرم چشموں کے اوپر تعمیر کی گئی ہے۔ یہ مسجد اپنے وسیع گنبد اور بلند میناروں کے باعث بھی مشہور ہے۔ بنیا باشی صوفیہ کی واحد مسلم عبادت گاہ ہے جس کی مسجد کی حیثیت ابھی تک قائم ہے۔ یہ بلغاریہ پر 5 صدیوں تک جاری رہنے والے عثمانی دور کی ایک عظیم یادگار ہے۔ یہ شہر میں مقیم ہزاروں مسلم باشندوں کے زیر استعمال ہے۔

 

غازی خسرو بیگ مسجد

غازی خسرو بیگ مسجد
غازی خسرو بیگ مسجد جسے مختصراً بیگ مسجد بھی کہا جاتا ہے بوسنیا و ہرزیگووینا کے دارالحکومت سرائیوو  کی اہم ترین مسجد ہے۔ اسے ملک کا اہم ترین اسلامی مرکز اور عثمانی طرز تعمیر کا شاہکار قرار دیا جاتا ہے۔

یہ مسجد 1531ء میں عثمانی ولایتِ بوسنیا کے گورنر غازی خسرو بیگ کے حکم پر تعمیر کیا گیا۔ اس مسجد کو عثمانیوں کے مشہور معمار سنان پاشا نے تعمیر کیا جنہوں نے بیگ مسجد کی تعمیر کے بعد سلطان سلیم اول کے حکم پر ادرنہ میں شاندار جامع سلیمیہ تعمیر کی۔

محاصرۂ سرائیوو کے دوران دیگر کئی مقامات کے علاوہ مسجد کو بھی سرب جارح افواج کے ہاتھوں سخت نقصان پہنچا۔ 1996ء میں اس مسجد کی تعمیر نو کا کام کیا گیا۔ یہ مسجد آج بھی شہر کی عبادت گاہوں میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔

خسرو بیگ نے 1531ء سے 1534ء کے درمیان حلب، شام میں بھی ایسی ہی ایک مسجد تعمیر کرائی جو خسرویہ مسجد کہلاتی ہے۔

 

مسجد ادھم بے

مسجد ادھم بے

ادھم بے البانیا کے دارالحکومت تیرانا کے مرکز میں واقع ایک مسجد ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کا آغاز 1789ء میں ملا بے نے کیا اور اس کی تکمیل سلیمان پاشا کے پوتے حاجی ادھم بے کے ہاتھوں 1823ء میں ہوئی۔ البانیہ میں اشتراکی دور میں یہ مسجد بند کر دی گئی اور طویل بندش کے بعد 18 جنوری 1991ء کو اسے کھول دیا گیا۔ مسجد کے دوبارہ کھولے جانے پر اشتراکی حکام کی شدید مخالفت کے باوجود دس ہزار افراد پرچم ہاتھوں میں لیے مسجد پہنچے اور یہ واقعہ البانیہ میں اشتراکیت کے زوال کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ اس مسجد میں کی خاص بات اس میں کیا گیا مصوری کا کام ہے جس میں نباتات، آبشاروں اور پلوں وغیرہ کی تصاویر بنائی گئی ہیں جو اسلامی فن تعمیر میں کہیں نہیں دیکھا گیا۔ مسجد سیاحت کے لیے تو ہر وقت کھلی رہتی ہے تاہم اس کے اندر نماز ادا نہیں کی جاتی۔