حضرت خدیجہ تاریخ کے آئینہ میں عورت کے مال سے مھر کی ادائیگی کرے
حضرت خدیجہ تاریخ کے آئینہ میںعورت کے مال سے مھر کی ادائیگی کرے )جس پرحضرت ابوطالب نے ناراضگی کااظھار کرتے ھوئے غضب کے عالم میں فرمایا،”اذاکانوا مثل ابن اخی ھذاطلبت الرجل باغلی الاثمان وان کانوا امثالکم لم یزوجوا الابالمھر الفالی“(۱۹)(اگرکوئی مردمیرے اس بھتیجے کے مانند ھوگاتوعورت اس کوبڑے بھاری مھر دے کرحاصل کرینگی لیکن اگر وہ تمھاری طرح ھوا تواسکو خود گراںو بھاری مھر دیکر شادی کرناھوگی )ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت نے اپنامھر (جو بیس بکرہ نقل ھواھے)خود ادا کیاتھا(۲۰)اور ایک روایت کے مطابق آپ کے مھر کی ذمہ داری حضرت علی نے قبول کرلی تھی ،حضرت کی عمر کے سلسلے میں تمام مورخین کااس پراتفاق ھے کہ حضرت خدیجہ سے آپ نے پھلی شادی ۲۵/سال کی عمر میںکی لیکن خود حضرت خدیجہ کی عمر کے بارے میںکثیر اختلاف وارد ھواھے چنانچہ ۲۵،۲۸،۳۰/اور۴۰سال تک بھت کثرت سے روایات وارد ھوئی ھیں (۲۱)لیکن معروف ترین قول یہ ھے کہ آپ کی عمر شادی کے وقت ۴۰سال تھی۔ (۲۲)
آیاحضرت خدیجہ (ع)رسول سے قبل شادی شدہ تھیں ؟
اس مسئلہ میں کہ آیارسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے حبالہ عقد میں آنے سے قبل حضرت خدیجہ دوسرے افراد کے ساتھ بھی رشتہ مناکحت سے منسلک رھچکی تھیں یانھیں تاریخ کے مختلف اوراق پر متعدد راویوں کے اقوال میں کثیر اختلاف واقع ھواھے چنانچہ بعض راویوں کے نزدیک رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے شادی کرنے سے قبل حضرت خدیجہ شادی شدہ تھیں اور سابقہ شوھرو ں سے آپ کی اولاد یں بھی ھوئیں تھیں۔
تاریخ کے مطابق آپ کے سابق شوھروں کے نام بالترتیب ”عتیق بن عایذبن عبد اللهفخروی “اور”ابوھالہ تمیمی“ھیں (۲۳)اس کے علاوہ خود آنحضرت کے بارے میں روایت وارد ھوئی ھے کہ ”عائشھ“کے علاوہ آپ نے کسی کنواری خاتون سے شادی نھیں کی تھی (۲۴)لیکن یہ تمام روایات جویہ ثابت کرتی ھیں کہ حضرت خدیجہ شادی شدہ تھیں اوررسول سے قبل بھی دوسرے کی شریک حیات رہ چکی تھیں ،دلائل اوردوسری روایات معتبرہ کی روشنی میں صحیح نظرنھیں آتیں ،بلکہ تمام تاریخ کوسیاست کے ھاتھوں مسخ کئے جانے کی ناکام کوششوں میںسے ایک کانتیجہ ھیں ۔
تجزیہ و تحلیل
۱)۔ابن شھر آشوب کابیان ھے کہ ”مرتضیٰ شامی میں اورابوجعفرتلخیص میں رقم طراز ھیں کھ”ان النبی تزوج وکانت عذراء“(۲۵)نبی نے آپ سے شادی کی درحالیکہ آپ کنواری تھیں“۔
اس کے علاوہ اسی مطلب کی تائید اس روایت سے بھی ھوئی ھے جو ثابت کرتی ھے”ان رقیہ وزینب کانتاابتی ھالةاخت خدیجہ (۲۶)رقیہ اور زینب خدیجہ کی بھن ھالہ کی بیٹیاں تھیں(نہ کہ خدیجہ کی)۔
۲)ابوالقاسم کوفی کابیان ھے کہ ”خاص وعام اس بات پر متفق ھیں کہ تمام اشراف سربرآور دہ افراد حضرت خدیجہ سے ازدواج کے آرزومند تھے لیکن خدیجہ کے بلند معیار کے سامنے ان کی دولت کی فراوانی اورشان وشوکت ھیچ نظر آتی تھی یھی وجہ تھی کہ حضرت خدیجہ نے سب کے رشتوں کوٹھکرادیاتھالیکن زمانے کی حیرت کی اس وقت کوئی انتھا نہ رھی جب اسی خدیجہ نے عرب کے صاحبان مال وزراورفرزندان دولت و اقتدار کوٹھکراکر حضرت رسالت مآب سے رشتہ ازدواج قائم کرلیاجن کے پاس مال دنیامیں سے کچہ نہ تھا اسی لئے قریش کی عورتیں خدیجہ سے تحیر آمیز ناراضگی کااظھار کرتے ھوئے سوال کربیٹھیں کہ اے خدیجہ !تو نے شرفاوامراء قریش کوجواب دے دیااورکسی کوبھی خاطر میں نہ لائی لیکن یتیم ابوطالب کوجو تنگ دست وبے روزگار ھے انتخاب کرلیااس روایت سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ حضرت خدیجہ نے مکہ کے صاحبان دولت وثروت کو رد کردیاتھااورکسی سے بھی شادی کرنے پر آمادہ نھیں تھیں ،دوسری طرف اس روایت کی رد سے جوسابقا ذکر ھوئی آپ کے ایک شوھر کانام ”ابوھالہ تمیمی “ھے جوبنی تمیم کاایک اعرابی تھا،عقل انسانی اس بات پر متحیر ھوجاتی ھے کہ کس طرح ممکن ھے کہ کوئی اشراف کے پیغام کوٹھکرادے اورایک اعرابی کواپنے شریک حیات کے طور پرانتخاب کرلے ،علاوہ برایں اس سے بھی زیادہ تعجب کا مقام یہ ھے کہ خدیجہ کے اشراف کونظر انداز کرکے رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو (جو خاندانی اعتبار سے بلند مقام کے حامل تھے )انتخاب کرنے پر توقریش کی عورتیں انگشت نمائی کرتی نظر آئیں لیکن ایک اعرابی سے شادی کے خلاف عقل فعل پر، پر سخن زمانہ ساکت رہ جائے (الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/۲ص/۱۲۳)اس دلیل کی روشنی میں یہ واضح ھوجاتاھے کہ حضرت خدیجہ نے رسول سے قبل کوئی شادی نھیں کی تھی اوراگر کی ھوتی توزمانے کے اعتراضات تاریخ میں محفوظ ھوتے۔
۳)بعض لوگوں نے حضرت خدیجہ کے شادی شدہ ھونے پر ا س روایت سے استدلال کیاھے کھ”راہ اسلام کااولین شھید حارث بن ابی ھالہ فرزند حضرت خدیجہ ھے(۲۷)
مذکورہ بالاروایت کے مقابلے میں دوسری روایات جن کی سند یں معتبر ھیں ”ابو عمار اور ام عمار“کو اسلام کے پھلے شھید کی صورت میں پیش کرتے ھیں ”ان اول شھید فی الاسلام سمیہ والدہ عمار “(۲۸)(اسلام کی راہ میں پھلی شھید ھونے والی سمیہ والدہ عمار ھیں )اورابن عباس اورمجاھد کی روایت کے مطابق ”قتل ابوعماروام عماراول قتیلین قتلا من المسلمین“( ۲۹)
اسلام کی راہ میں شھید ھونے والے پھلے افراد ابوعمار اورام عمار ھیں ۔
ان روایات سے کاملاًردھوتی ھےکہ یہ شخص جسکو حضرت خدیجہ کے بیٹے کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات پر مرقوم کردیاگیاھے اسلام کی راہ میں قربان ھونے والاپھلاشھید تھا،لھذامعلوم نھیںھے کہ اس شخص کاوجود خارجی تھا بھی یانھیں چہ جائیکہ حضرت خدیجہ کافرزند ھوناپائے ثبوت کوپھنچے۔
۴)،روایات سے معلوم ھوتاھے کہ حضرت خدیجہ کی ایک بھن تھیں جن کانام ’ھالۂتھااس ھالہ کی شادی ایک فخروی شخص کے ساتھ ھوئی جس سے ایک بیٹی پیداھوئی جس کانام ”ھالھ“تھا،پھراس ھالہ اولی (خواھرخدیجہ (ع))سے ایک بنی تمیم سے تعلق رکھنے والے شخص نے شادی کرلی جوابوھند کے نام سے معروف ھے۔اس تمیمی سے ھالہ کے ایک بیٹاپیداھوا جس کانام ھند تھااوراس شخص ابوھند تمیمی(شوھر خواھرخدیجہ )کی ایک اور بیوی تھی جسکی دوبیٹیاں تھیں ’رقیۂاور”زینب“کچہ عرصے کے بعد ابو ھند کی پھلی بیوی جورقیہ اورزینب کی ماں تھی فوت ھوگئی اورپھر کچہ ھی مدت کے بعد ”ابوھند “بھی دنیاسے رخصت ھوگیااوراس کابیٹا”ھند “جوھالہ سے تھا اوردوبیٹیاں جو اس کی پھلی بیوی سے تھیں جن کا نام تاریخ ،رقیہ اورزینب ذکر کرتی ھے ”خدیجہ “کی بھن کے پاس باقی رہ گئے جن میں سے ھند اپنے باپ کی موت کے بعد اپنی قوم بنی تمیم سے ملحق ھوگیااور”ھالہ “(حضرت خدیجہ کی بھن )اوراس کے شوھرکی دونوں بیٹیاں حضرت خدیجہ کے زیر کفالت آگئے ،اور آنحضرت سے آپ کی شادی کے بعد بھی آپ ھی کے ساتھ رھیں اورآپ ھی کے گھر میں دیکھاگیاتھا اس لئے عرب خیال کرنے لگے کہ یہ خدیجہ ھی کی بیٹیاں ھیں اورپھر ان کوحضرت سے منسوب کردیاگیا لیکن حقیقت امریہ تھی کہ رقیہ اورزینب حضرت خدیجہ کی بھن ”ھالہ “کے شوھر کی بیٹیاں تھیں۔ (الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/۲ص/۱۲۶)
مذکورہ بالادلائل کی روشنی میںیہ بات پائے ثبوت کو پھنچی ھے کہ حضرت خدیجہ رسول کے حبالئہ عقد میں آنے سے قبل غیر شادی شدہ تھیں اورآپ کے شوھروں اورفرزندوں کے نام جوتاریخ میں نظر آتے ھیں یاتوکسی غلط فھمی کانتیجہ ھیں یاسیاست کے ھاتھوں عظمت رسول کو کم کرنےکی ایک ناکام کوشش ،مذکورہ دلائل کے علاوہ بھی حلّی اورنقضی جوابات دئے گئے ھیں جو تاریخ کی اس حقیقت سے پردہ اٹھانے والے ھیں لیکن یہ مختصر مضمون ان تمام دلائل اورروایات کامتحمل نھیںھوسکتاھے،آپ کی اولاد میں حضرت فاطمہ زھرا کے علاوہ کوئی فرزند زندہ نھیں رھا۔
رسول کی بعثت اورحضرت خدیجہ کاایمان لانا
حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث بہ رسالت ھونے کے بعد عورتوں میں جس شخصیت نے سب سے پھلے آپ کی تصدیق کی اورآپ پر ایمان لائی وہ حضرت خدیجہ کی ذات گرامی ھے (۳۰)طبری نے واقدی سے روایت کی ھے کہ ”اجتمع اصحابنا علی ان اول اھل القبلة استجاب لرسول الله خدیجہ بنت خویلد (۳۱)علماء کااس بات پر اتفاق ھے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر سب سے پھلے لبیک کھنے والی حضرت خدیجہ کی ذات گرامی ھے )خود رسول اکرم صلی یللہ ع لیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ھے ”والله لقد امنت بی اذ کفر الناس واویتنی اذ رفضنی الناس وصدقتنی اذکذبنی الناس (۳۲)خداکی قسم وہ (خدیجہ )مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ھوئے تھے اس نے مجھے اس وقت پناہ دی جب لوگوں نے مجھے ترک کردیاتھااوراس نے ایسے موقع پر میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلارھے تھے)
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں :۔لم یجمع بیت واحد یومئیذ فی الاسلام غیر رسول الله وخدیجہ واناثالثھا (۳۳)وہ ایسا وقت تھاجب روئے زمین پر کوئی مسلمان نہ تھابجز اس خاندان کے جو رسول اور خدیجہ پر مشتمل تھا اور میں ان میںکی تیسری فرد تھا )ابن اثیر کابیان ھے :۔اول امراء ةتزوجھا واول خلق اللہ اسلم بالاجماع المسلمین لم یتقد مھاوجل ولاامراء ة“(۳۴)حضرت خدیجہ پھلی خاتون ھیں جن سے آنحضرت نے رشتئہ ازدواج قائم کیااوراس امر پر بھی مسلمانوں کا اجماع ھے کہ آپ سے پھلے نہ کوئی مرد ایمان لایا اورنہ کسی عورت نے اسلام قبول کیا)۔
آنحضرت کی حضرت خدیجہ(ع) سے محبت وعقیدت
حضرت خدیجہ کی آنحضرت کی نگاہ میں محبت و عقیدت اورقدرومنزلت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاھے کہ آپکی زندگی میں آنحضرت نے کسی بھی خاتون کو اپنی شریک حیات بناناگوارہ نھیں کیا(۳۵)آپ کے بارے میں حضرت کاارشاد ھےکہ ”خدیجہ اس امت کی بھترین عورتوں میںسے ایک ھے
(۳۶)آپ کی وفات کے بعد بھی ھمیشہ آپ کو یاد فرماتے رھے (۳۷)عائشہ کابیان ھے کہ مجھے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی زوجہ سے اتناحسد نھیںھواجتناخدیجہ سے ھواحالانکہ خدیجہ کی وفات مجھ سے قبل ھوچکی تھی اوراس حسد کاسبب یہ تھاکہ آنحضرت آپ کاتذکرہ بھت زیادہ فرماتے تھے(۳۸)چنانچہ یھی سبب ھے کہ دوسر ی جگہ عائشہ سے روایت نقل ھوئی ھے کہ ”ایک روز رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم خدیجہ کی تعریف فرمارھے تھے مجھے حسد پیداھوااورمیں نے عرض کی یارسول اللہ خدیجہ ایک ضعیفہ کے علاوہ کچہ بھی نھیں تھی جو مرگئی اورخدانے آپ کواس سے بھتر عطا کردی ھے (عائشہ کااشارہ اپنی طرف تھا)رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم یہ سن کرناراض ھوگئے(۳۹)اورغضب کے عالم میں فرمایا”لاوالله ماابد لنی اللھ خیر امنھااٰمنت بی اذکفر الناس وصدقتنی اذکذبنی الناس وواستنی بھالھااذحرمنی الناس ورزقنی منھاالله ولدادون غیرھامن النساء“(۴۰)خدا کی قسم خدانے مجھکو اس سے بھتر عطانھیں کی وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ھوئے تھے اس نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھکو جھٹلارھے تھے اوراس نے اپنے مال کے ذریعہ میری اس وقت مدد کی جب لوگوں نے مجھے ھر چیز سے محروم کردیاتھا اورخدانے صرف اسی کے ذریعہ مجھے اولاد عطافرمائی اورمیری کسی دوسری بیوی کے ذریعہ مجھے صاحب اولاد نھیں کیارسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے اس جواب سے آنحضرت کی حضرت خدیجہ کیلئے محبت اورعقیدت واحترام کااندازہ ھوتاھے ۔خدیجہ کااسلام کیلئے اپنااورسب کچہ قربان کرکے بھی اسلام کی نشرواشاعت کاجذبہ ھی تھاجس نے اسلام کودنیاکے گوشہ وکنار تک پھنچنے کے مواقع فراھم کئے اوریھی سبب تھاکہ ”حضرت نے آپ کوخداکے حکم سے جنت کی بشارت دیدی تھی “عائشہ سے مسلم نے روایت نقل کی ھے کہ ”بشر رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم بنت خویلد ببیت فی الجنة “(حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے خدیجہ سلام الله علیھاکو جنت کی بشارت دی تھی )(۴۱)حضرت خدیجہ اور ابوطالب رسول کے دو ایسے مدافع تھے جنکی زندگی میں کفار قریش کی طرف سے آپ کو کوئی گزند نھیں پھنچا لیکن رسول کے یہ دونوں جانثار ایک ھی سال بھت مختصر وقفہ سے یکے بعد دیگرے دنیاسے رخصت ھوگئے اورروایات کے مطابق رسول پر دونوں مصیبتیں ھجرت سے تین سال قبل اورشعب ابی طالب سے باھر آنے کے کچہ روز بعد واقع ھوئیں (۴۲)رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا(۴۳)اوریہ مصیبت رسول کیلئے اتنی سخت تھی کہ رسول خانہ نشین ھوگئے اورآپ نے حضرت خدیجہ اورابوطالب کی وفات کے بعد باھر نکلنابھت کم کردیاتھا(۴۴)ایک روز کسی کافر نے آپ کے سر پر خاک ڈال دی رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اسی حالت میں گھر میں داخل ھوئے آپ کی زبان پر یہ کلمات تھے”مانالت منی قریش شیا اکرھہ حتی مات ابوطالب“(۴۵) قریش ابوطالب کی زندگی میں مجھکوکوئی گزند نھیں پھنچا سکے)آپ حضرت ابوطالب اورخدیجہ کی زندگی میں اطمینان سے تبلیغ میں مصروف رھتے تھے ۔خدیجہ گھر کی چھار دیواری میں اور ابوطالب مکہ کی گلیوں میں آپ کے مدافع تھے
حضرت خدیجہ جب تک زندہ رھیں رسول اللهصلی الله علیہ وآلہ وسلم کے اطمینان وسکون کا سبب بنی رھیں دن بھر کی تبلیغ کے بعد تھک کر چور اورکفار کی ایذارسانیوں سے شکستہ دل ھوجانے والارسول جب بجھے ھوئے دل اورپژمردہ چھرے کے ساتھ گھر میں قدم رکھتاتو خدیجہ کی ایک محبت آمیز مسکراھٹ رسول کے مرجھائے ھوئے چھرے کوپھر سے ماہ تمام بنادیاکرتی تھی ،خدیجہ کی محبتوں کے زیر سایہ کشتی اسلام کاناخدا عالمین کیلئے رحمت بنکر دنیاکی ایذارسانیوں کو بھلاکر ایک نئے جوش و جذبے اورولولے کے ساتھ ڈوبتے ھوئے ستاروں کاالوداعی سلام اورمشرق سے سرابھارتے ھوئے سورج سے خراج لیتاھواایک بار پھر خانہ عصمت وطھارت سے باھر آتا اورباطل کو لرزہ براندام کرنے والی لاالہ الاالله کی بلند بانگ صداؤں سے مکہ کے درودیوارھل کررہ جاتے کفارجمع ھوتے رسول پر اذیتوں کی یلغار کردیتے لیکن انسانیت کی نجات اورانسانوں کی اصلاح کاخواب دل میں سجائے رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم خوشاآیند مستقبل کے تصور میں ھر مصیبت کاخندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے رھے اورآپ کے اسی صبر وتحمل اورآپ کی پاکدامن زوجہ کے تعاون اورجانثاری سے آج ھم مسلمانان جھان پرچم توحید کے علمبردار رسول کے اس خواب اصلاح کوشرمندہ تعبیر کرنے کے لئے آپ کے اس آخری جانشین کے انتظار میںسرگرداں ھیں جوزمین کوعدل وانصاف سے پر کردیگا ۔
حوالے ۔۔۔۔ حضرت خدیجہ تاریخ کے آئینہ میں
۱۔ صحیح مسلم /۴۴/۷۶/۲۴۳۵، ترمذی کتاب مناقب حدیث /۳۹۰۱، کنز العمال ح/ ۱۳/ص/۶۹۳
۲۔ اسد الغابہ ج/۵ ص / ۴۳۸ ، مسلم فضائل صحابہ / ۳۴۳۷ ، البدایہ و النھایہ ج/ ۳ ص / ۱۵۸
۳۔ بحار ج/ ۱۶ ص/ ۱۲ ، اسد الغابہ ج/ ۵ ص / ۴۳۹
۴۔ طبقات ابن سعد ج/ ۱ ص /۸۸
۵۔سیرة ھشام ج/ ۴ ص / ۲۸۱ ، الاصابہ ج / ۴ ص / ۲۸۱،طبری ج / ۳ ص / ۳۳
۶۔البدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۲۶۲
۷۔ سیرة حلیہ ج / ۱ ص / ۱۳۱ ، طبقات ابن سعد ج/ ۱ ص / ۸۶ ، حیات النبی و سیرتہ ج / ۱ ص / ۶۰
۸۔ سیرة ھشام ج/ ۱ ص / ۲۵۹
۹۔ البدایہ و النھایہ ج/ ۲ ص / ۳۶۲ ، سیرة ھشام ج / ۱ ص / ۳۳۸
۱۰۔ بحار ج / ۱۶ ص / ۲۲
۱۱۔ البدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۲۵۸
۱۲۔ البدء و التاریخ ج / ۲ ص / ۴۷
۱۳۔ تاریخ یعقوبی ج / ۱ ص / ۳۷۶
۱۴۔ بدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۳۵۸ ، طبری ج / ۲ ص / ۲۰۴
۱۵۔ الکامل فی التاریخ ج/ ۱ ص / ۴۷۲ ، دلائل النبوة ج / ۲ ص / ۶۶
۱۶۔ سیرة حلبیہ ج / ۱ ص / ۱۳۵ ، البدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۳۵۸ ، الکامل فی التاریخ ج / ۱ ص / ۴۷۲
۱۷۔ السیرة النبویہ (دحلان ) ج / ۱ ص/ ۹۲
۱۸۔بدایہ والنھایہ ج/ ۲ ص / ۳۵۸، بحار الانوار ج/ ۱۶ ص / ۲۲
۱۹۔بحار الانوار ج/ ۱۶ ص / ۲۲
۲۰۔ سیرة حلبیہ ج / ۱ ص /۱۴۰ ، طبری ج/ ۲ ص / ۲۰۵
۲۱۔ الصحیح من سیرة النبی ج / ۲ ص / ۱۱۲ ۔۱۱۳ ، بحار الانوار ج / ۱۶ ص / ۱۴
۲۲۔سیرہ ھشام ج / ۱ ص ۲۲۷
۲۳۔البدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۳۶۰ ، البدء و التاریخ ج/ ۲ ص / ۴۸
۲۴۔سیرہ حلبیہ ج / ۱ ص /۱۴۰، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/ ۲ ص / ۱۱۵
۲۵۔فروغ ابدیت ج/ ۱ ص / ۱۹۸
۲۶۔ سیرہ حلبیہ ج / ۱ ص/ ۱۴۰
۲۷۔ طبری ج / ۳ ص / ۳۶
۲۸۔مناقب آل ابیطالب ج / ۱ ص / ۲۰۶ ، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج / ۲ ص / ۱۲۲
۲۹۔مناقب آل ابیطالب ج / ۱ ص / ۲۶
۳۰۔ الاصابہ ج / ۱ ص / ۲۹۳
۳۱۔ الاصابہ ج / ۴ص /۳۳۵ ، اسد الغابہ ج / ۵ ص / ۴۸۱ ، حیاة النبی ج /۱ ص / ۱۲۱
۳۲۔ الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/ ۲ ص ۱۲۵