• صارفین کی تعداد :
  • 4396
  • 1/30/2008
  • تاريخ :

قرآن اور عورت کاحق مہر

 

ازدواج

مہر ،اللہ کی طرف سے عورت کے لیے عطیہ ہے مہر دینا مرد کا احسان نہیں بلکہ عورت کا حق اور خدائی ہدیہ ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے: وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَةً فَإِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ہَنِیئًا مَّرِیْئًا ۔ اور عورتوں کے مہر انکو خوشی سے دیا کرو اگر وہ کچھ حصہ اپنی مرضی سے معاف کردیں تو اسے خوشگواری لے کر صرف سکتے ہو ۔ (سورئہ نساء:۴) مہر کی مقدار حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زرہ بیچ کر اسکی قمیت حضور کی خدمت میں پیش کی حضور نے اسی مہر کی رقم ۴۸۰ درہم سے جہیز خرید ا۔ چاند ی کی قیمت جس وقت ۴۵ روپے فی تولہ تھی اس وقت ۴۸۰ درہم یعنی ۱۴۵۵۵ روپے بنتے ہیں یہی مہر فاطمی ہے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو مہر فاطمی کے مطابق مہر ادا کرتے ہیں لیکن جہاں تک مہر شرعی کا تعلق ہے اس کی مقدار متعین نہیں بلکہ دونوں خانوادوں کی باہمی رضا مندی جس مقدار پر ہو جائے ۔ وہ جائز ہے۔ ارشاد رب العزت ہے: وَإِنْ أَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَوْجٍ وَّآتَیْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوْا مِنْہُ شَیْئًا أَتَأْخُذُوْنَہ بُہْتَانًا وَّإِثْمًا مُّبِیْنًا وَکَیْفَ تَأْخُذُوْنَہ وَقَدْ أَفْضٰی بَعْضُکُمْ إِلٰی بَعْضٍ وَّأَخَذْنَ مِنْکُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا اگر تم لوگ ایک زوجہ کی جگہ دوسری زوجہ لینا چاہو اورایک کو بہت سا مال بھی دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لینا کیا تم بہتان اورصریح گناہ کے ذریعہ مال لینا چاہتے ہو اور دیاہوا مال تم کیسے واپس لے سکتے ہو جب کہ تم اسکے ساتھ مباشر ت کر چکے ہو اور وہ تم سے شدید عہد وقرار لے چکی ہیں ۔ ( سورہ نساء :۲۰۔۲۱ ) حضرت عمر ابن خطاب نے ایک دفعہ کہا حق مہر اگر زیادہ لیاگیاتو بحق سرکار ضبط کر لیا جائے گا ایک مخدرہ نے اٹھ کر یہ آیت پڑھی اور کہا جب اللہ نے زیادہ مہر لینے کا کہا تو آپ کیسے منع کرتے ہیں ۔۔ظاہر ہے جب پل کی مندرجہ رقم ہوئی تو کافی زیادہ ہوگی۔ بہر حال حق مہر عورت کا حق ہے عورت کے لیے اللہ کی طرف سے عطیہ ہے اور مرد کی محبت کا اظہار ہے ۔ ادائیگی ضروری ہے ۔