مختصر اصولِ دین کا تذکرہ
میرے فرزند! خدا تمہیں سیدھے راستے کی ہدایت کرے اور ہر عالم میں گناہ و معصیت و لغزش سے محفوظ رکھے۔ یاد رکھو کہ سب سے پہلا اسلامی فریضہ اصول دین کے بارے میں غور و فکر کرنا ہے کہ دلائل کے ساتھ عقیدے کی بنیاد مضبوط کی جائے اور خالق کائنات، انبیاء اور اولیاء کے بارے میں یقین کو مستحکم بنایا جائے مقصد یہ نہیں ہے کہ انسان سراسر علم و حکمت اور کلام میں مشغول ہو جائے اور مفصل کتابوں کا مطالعہ شروع کر دے۔ اس کام سے تو میں کمال علم و عقل سے پہلے منع بھی کرتا ہوں کہ ان کتابوں میں ایسے شبہات موجود ہیں جو کسی وقت بھی انسان کو ہلاک کر سکتے ہیں اور اسی لئے آئمہ معصومین (ع) نے ان الجھنوں میں پڑنے سے منع کیا ہے بلکہ شدت سے منع کیا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ عقائد مجلسی جیسی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے اور عقیدہ کو دلائل کے ذریعہ مضبوط بنایا جائے۔ مثلاً وجودِ خدا کے ثبوت کے لئے کائنات اور اس کے عجائبات کا مطالعہ کیا جائے اور سوچا جائے کہ کوئی اثر موثر کے بغیر نہیں پیدا ہو سکتا جیسا کہ شاعر نے کہا ہے۔ پئے وجودِ خدا کائنات کی ہر شے سکون ہو کہ ہو حرکت عظیم شاہد ہے۔ہر ایک شے سے نمایاں ہے اسکی شان کمال یہ کائنات ہے آیت کریم واحد ہے۔(1)
امیر المومنین علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں اسی نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ’’ان انسانوں کا خیال ہے کہ یہ وہ گھاس ہیں جن کا اُگانے والا کوئی نہیں ہے وہ صورت ہیں جن کا مصور کوئی نہیں ہے۔ انھوں نے اپنے دعویٰ کی تحقیق بھی نہیں کی اور کسی دلیل کی جستجو بھی نہیں کی۔ کاش یہ سوچتے کہ کیا بغیر بانی کے کوئی بنا ہو سکتی ہے یا بغیر عامل کے کوئی عمل ہو سکتا ہے؟
اس ارشادِ گرامی سے امام علیہ السلام کا مقصد یہ ہے کہ محسوسات پر قیاس کر کے ایک ایسا طریقہ استدلال رائج کیا جائے جہاں منکر کو مدّعی کی صف میں کھڑا کر کے اس سے ثبوت کا مطالبہ کیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ جب عالم محسوسات میں کوئی شے بغیر موجد کے وجود میں نہیں آسکتی تو عالم کے بارے میں اس کے خلاف دعویٰ کرنے والے کی ذمہ داری ہے کہ اس کا ثبوت پیش کرے اور یہ مناظرہ کا وہ بہترین طریقہ ہے جہاں منکر کو مدعی بنا کر بارِ ثبوت اس کے سر ڈال دیا جاتا ہے اکہ اس کا دعویٰ قانون ارتکاز کے خلاف ہے جیسا کہ اعرابی نے وجودِ خدا کا اندازہ کر لیا کہ میگنی اونٹ کے وجود کی دلیل ہے اور نشان قدم راہرو کے گزرنے کا ثبوت ہیں تو اتنی بڑی کائنات و جودِ خدا کی دلیل کیوں نہ ہوگی۔
یہی طریقۂ استدلال ضعیفہ نے بھی استعمال کیا تھا کہ جب میرے بغیر چرخہ نہیں چلتا ہے تو خالق کے بغیر کائنات کیسے چل سکتی ہے اور یہ فطری اور ارتکازی طریقہ اس قدر مستحسن اور سنجیدہ ہے کہ روایات میں ضعیفہ جیسے ایمان کی تاکید کی گئی ہے اور اسے بہترین طریقۂ استدلال قرار دیا گیا ہے۔
فرزند! خدا تمہیں شرک و نفاق سے محفوظ رکھے۔ توحید پروردگار کی دلیل کے لئے یہ کافی ہے کہ خداؤں کا تعدد عالم کی تباہی کا باعث ہے جیسا کہ پروردگار عالم نے خود فرمایا ہے کہ اگر دو خدا ہوتے تو زمین و آسمان تباہ و برباد ہو جاتے اور امیر الموحدین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ
’’اگر خدا کے علاوہ کوئی دوسرا بھی خدا ہوتا تو اس کے بھی پیغمبر اور رسول ہوتے‘‘۔ یہاں بھی امام نے منکر کو مدعی بنا دیا ہے کہ خدائی بغیر مرسلین کے نہیں ثابت ہو سکتی تو اگر کوئی دوسرے خدا مدعی ہو تو اس کے پیغمبر اور رسول بھی تلاش کرکے لائے۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ دو خدا ہوں گے تو دونوں میں ایک جہت مشترک ہوگی اور ایک جہت امتیاز اور اس طرح دونوں مرکب ہو جائیں گے اور یہ خود ایک نقص ہے جو خدائی کے لئے مضر ہے۔ پھر اگر دونوں میں کوئی بھی خدائی کے لئے کافی نہ ہوگا تو دونوں خدائی سے خارج ہو جائیں گے اور اگر کوئی ایک بھی کافی ہو گا تو دوسرا خدا نہ رہ جائے گا اور اگر دونوں الگ الگ کافی ہوں گے تو اظہار خدائی میں اختلاف پیدا ہوگا اور کوئی چیز عالم وجود میں نہ آسکے گی۔
فرزند! صفاتِ سلبیہ کی نفی کے لئے بہترین ثبوت یہ ہے کہ یہ سب نقائص ہیں اور خدا نقائص سے پاک و پاکیزہ ہے جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’کمال اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفات کی نفی کی جائے کہ صفت موصوف سے الگ ایک شے ہوتی ہے۔‘‘
فرزند! نبوت مطلقہ کے ثبوت کے لئے یہ کافی ہے کہ لطف پروردگار کا فریضہ ہے اور لطف کا تقاضا یہ ہے کہ خالق و مخلوقات کے درمیان ایک واسطہ رہے جو اُدھر کے فیض کو اِدھر پہونچاتا رہے اور اس کے ارشادات کے مطابق خیر و شر، نفع و نقصان کی خبر دیتا رہے اور اس کے اوامر و نواہی کی تبلیغ کرتا رہے اس لئے کہ حقیقی مصالح و مفاسد تک پہونچنا وحی و الہام کے بغیر ممکن نہیں ہے اور وحی و الہام کا مرتبہ خواہشاتِ نفس میں ڈوبے ہوئے انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ وہ مرکز اعلیٰ تک رسائی نہیں حاصل کر سکتا اس کے لئے ایسا نفس درکار ہے جو غفلت کی نیند اور خواہشات کے نشہ میں نہ ہو۔ نفس امارہ کا قیدی اور دار ظلمت میں طالب آرام ہو۔ روحانیات و مجاہدات سے نفس کی تکمیل کرے اور توجہات پروردگار کا مرکز بن کر مر کز وحی و الہام قرار پا جائے۔
یہ بھی یاد رہے کہ وحی و الہام کا اندازہ ہر شخص کے لئے ممکن نہیں ہے اسلئے معجزہ ضروری ہے تاکہ نبوت ثابت ہو سکے اور عبد و معبود کے درمیان خصوصی رابطہ کا اندازہ ہو سکے۔
نبوت خاصہ (نبوت مرسل اعظم) کے لئے یہ دلیل کافی ہے کہ حضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہاشمی و قرشی نے مکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے توحید اور نبوت کی دعوت دی ہے اور بے شمار معجزات کا اظہار کیا ہے اور جو ایسا کریگا وہ صاحبِ منصب ہوگا بشرطیکہ ویسے ہی کمالات کا حامل ہو جیسے کمالات سرکارِ دوعالم کو حاصل تھے اس لئے کہ خدا جھوٹے کی تائید نہیں کر سکتا اور اسے معجزہ نہیں دے سکتا۔
آپ کے معجزات میں قرآن مجید کا وجود کافی ہے کہ اسے قدرت نے آپ کو عطا فرمایا ہے جبکہ غلط مدعی کے ہاتھ میں معجزہ دینا قبیح اور تائید باطل ہے اور یہ شانِ عدالت پروردگار کے خلاف ہے۔
آپ کی نبوت سے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی نبوت بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ آپ نبی تھے اور آپ نے اس قدر انبیاء کی خبر دی ہے اور نبی غلط بیانی سے کام نہیں لے سکتا۔
قرآن مجید کے معجزہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ آپ نے قرآن مجید کو پیش کر کے اہلِ زبانِ عرب کے سامنے دو راستے رکھے تھے یا اِس قرآن کا جواب لے آئیں یا آپ کی نبوت پر ایمان لے آئیں۔ ورنہ پھر جنگ و جدال اور قتال کیلئے آمادہ ہو جائیں۔ جس کے نتیجہ میں ہر طرح کی قید و بند اور ذلت کا سامنا کرنا ہوگا لیکن عرب نے صاحب زبان ہونے کے باوجود سارے مصائب برداشت کئے اور جواب پیش نہیں کیا جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ جواب پیش کرنے سے عاجز تھے ورنہ اس طرح قتل و غارت اور غلامی و اسارت پر راضی نہ ہوتے۔
اور یہ خیال کہ کلام معجزہ نہیں ہوتا۔ ایک خیالِ فاسد ہے۔ معجزہ ہر اس شے کا نام ہے جس کے جواب لانے سے لوگ عاجز رہ جائیں اور اس سے یہ واضح ہو جائے کہ اس شخص کا رب العالمین سے خاص ارتباط ہے۔ معجزہ کے مافوق عادت ہونے کا ثبوت اہل فن کا اقرار ہوتا ہے جس طرح کہ ساحروں نے جناب موسیٰ علیہ السلام کے عصا کے بارے میں اقرار کیا تھا اور فصاحت و بلاغت کے رموز سے آشنا عرب نے قرآنِ مجید کے بارے میں اعتراف کیا ہے اور آیاتِ قرآن کے مقابلہ میں اپنے قصائد دیوار کعبہ سے اُتار لئے ہیں۔
ولایت مطلقہ کے بارے میں وہی تمام دلائل ہیں جو نبوت مطلقہ کے بارے میں بیان ہوئے ہیں اور ولایت خاصہ کے بارے میں وہ اخبار صریحہ دلیل ہیں جن میں پیغمبر اسلام نے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کا اعلان کیا ہے اور اس کے بعد ان کی گیارہ اولاد کو امام قرار دیا ہے اسکے علاوہ ان حضرات کے کرامات خود بھی ایک دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بغض معاندین کا روایات کے بارے میں اعتراض کرنا ایک ہٹ دھرمی کے علاوہ کچھ نہیں ہے جس کے مکمل جوابات کتابوں میں مندرج ہیں اور یہ مسئلہ اس قدر واضح ہو چکا ہے کہ دشمن بھی دل کے اندر شبہ نہیں پیدا کر سکتا چاہے باہر سے کسی قدر انکار کیوں نہ کرے۔
قیامت کے بارے میں تمام اہل مذاہب کا اتفاق ہے کہ اس کا اقرار کرنا چاہئے اور انکار نہیں کرنا چاہئے اگر چہ بعض حکماء اور متکلمین نے تفصیلات میں شبہات پیدا کئے ہیں لیکن تفصیلات کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان کے لئے اجمالی ایمان کافی ہے جیسا کہ آیات کریمہ اور روایاتِ متواترہ نے بیان کر دیا ہے اور طریقۂ استدلال بھی بتا دیا ہے کہ عادلِ حکیم کو اعمال کے مطابق جزا و سزا دینی چاہئے اور اسی جسم کو دینا چاہئے جس سے اعمال سرزد ہوئے ہیں۔ جسم کا فنا ہو جانا اس کی دوبارہ واپس نہ ہو سکنے کی دلیل نہیں کہ پیدا کرنے والے نے عدم سے وجود دیا ہے تو اب دوبارہ پیدا کرنے میں کیا زحمت ہے جبکہ مادہ باقی ہے چا ہے کسی شکل میں ہو جیسا کہ قرآن مجید نے ارشاد کیا ہے کہ ’’جیسے پیدا کیا ہے ویسے ہی دوبارہ ایجاد کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1:(علامہ جوادی)