جھوٹ کے نقصانات
سچائی جتنی پسندیدہ چیز ھے جھوٹ اتنی ھی نا پسندیدہ چیز ھے ۔ سچائی بھترین صفت ھے اور جھوٹ بد ترین صفت ھے ۔ زبان ،احساسات باطنی کی ترجمان اور راز ھائے دل کو ظاھر کرنے والی ھے ! جھوٹ اگر عداوت و حسد کی بنا پر ھو تو خطرناک غصہ کا نتیجہ ھے اور اگر طمع، لالچ یا عادت کی بنا پر ھو تو انسان کے اندر بھڑکتے ھوئے جذبات کا نتیجہ ھوتا ھے ۔
اگر زبان جھوٹ سے آشنا ھو گئی اور گفتگو میں جھوٹ نمایاں ھو گیا تو جھوٹ بولنے والے کی عظمت اس طرح پادر ھوا ھو جاتی ھے جیسے موسم خزاں میں درخت کے پتے! یا شیشوں سے بنے ھوئے مکان پر برستے ھوئے پتھر ! جھوٹ انسان کی ناپاکی و خیانت کی روح کو تقویت دیتا ھے اور ایمان کے بھڑکتے ھوئے شعلوں کو خاموش کر دیتا ھے ۔ جھوٹ رشتھٴ الفت و اتحاد و وفاق کو توڑ دیتا ھے اور معاشرہ میںعداوت و نفاق کے بیج بو دیتا ھے ۔ گمراھیوں کا زیادہ تر حصہ جھوٹے دعووں اور خلاف واقع گفتگووں کا نتیجہ ھوتا ھے ۔ برے لوگ اپنے فاسد مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنی شیریں بیانی ، کذب لسانی سے سادہ لوح حضرات کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ھیں اور اپنی رطب اللسانی کی زنجیر میں اسیر کر لیتے ھیں ۔ جھوٹا آدمی کبھی یہ سوچتا ھی نھیں ھے کہ کوئی دوسرا اس کے رازسے مطلع ھو جائے گا ۔ اسی اطمینان کی بنیاد پر اپنی گفتگو میں غلطیوں اور تناقض کا شکار ھوتا رھتا ھے اور کبھی شدید رسوائی سے دو چار ھو جاتا ھے اسی لئے یہ مثل بے بنیاد نھیں ھے کہ:
دروغ گو را حافظہ نباشد !
اس بری عادت کے عام ھونے کی ایک وجہ جس نے پورے معاشرے کو زھر آلود کر دیا ھے وہ مشھور مقولہ ھے جو زباں زد خاص و عام ھے کھ” دروغ مصلحت آمیز بھتر ازراستی فتنہ انگیز “یھی وہ خوشنما پردہ ھے جس نے اس برائی کی خباثت کو چھپا رکھا ھے اور عموما لوگ اپنے سفید جھوٹ کے جواز کے لئے اسی مقولہ کا سھارا لیتے ھیں ۔ لیکن اس بات کی طرف توجہ نھیں دیتے کہ عقل و خرد اور شریعت مطھرہ نے مخصوص شرائط کے ساتھ اس کو جائز قرار دیا ھے چنانچہ عقل و شریعت کا یہ فیصلہ ھے کہ اگر کسی مسلمان کی جان ، آبرو یا مال کثیر کو خطرہ ھو تو اس کا ھر ممکن طریقہ سے دفاع کیا جا سکتا ھے یھاں تک کہ اگر جھوٹ بول کر ان تینوںمیں سے کسی ایک کی حفاظت ممکن ھو تو جھوٹ بھی بول سکتا ھے ۔ لیکن یہ صرف ضرورت ھی کے وقت ھو سکتا ھے کیونکہ ضرورت حرام کو مباح کر دیتی ھے لیکن اس کے ساتھ یہ شرط ھے کہ انسان بقدر ضرورت ھی استعمال کر سکتا ھے ۔ مقدار ضرورت سے زیادہ جھوٹ نھیں بولا جا سکتا !
اور اگر اس مصلحت کے دائرے کو اپنے شخصی منافع اور نفسانی خواھشات تک کے لئے وسیع کر دیا جائے اور ھم یہ سمجھ لیں کہ اپنی ذاتی مصلحت و منفعت اور شھوت و خواھش کےلئے بھی اسی قاعدہ پر عمل کیا جا سکتا تو پھر بلا مصلحت والے جھوٹ کے لئے کوئی جگہ باقی نھیں رھے گی ۔ جیسا کہ اڑہ ڑھعظیم رائٹر نے لکھا ھے : ” ویسے تو ھر چیز کے لئے ایک سبب ھوتا ھے ( اور نہ بھی ھو تو ) ھم اپنے عمل کے لئے بھت سے عوامل اور بھت سی علتیں تخلیق کر سکتے ھیں اور یھی وجہ ھے کہ مجرم سے جب مواخذہ کیا جاتا ھے تو وہ اپنے جرم کے لئے پچاسوں عذر ، دلیل اور علت تلاش کر لیتا ھے اور اسی لئے پوری دنیا میں جو جھوٹ بولا جاتا ھے اس میں کوئی نہ کوئی نفع و خیر کا پھلو بھرحال ھو تا ھے ۔ اور اگر ایسا نہ ھو تو وہ جھوٹ لغو اور عبث ھو جائے گا اور پھر اس میں کوئی زیادہ ضرر و نقصان بھی نہ رھے گا ۔
جس چیز میں بھی انسان کا ذاتی فائدہ ھوتا ھے اس کو وہ فطری طور سے خیر سمجھتا ھے اور پھر جب وہ اپنے شخصی منافع کو سچ بولنے کی وجہ سے خطرہ میں دیکھتا ھے یا وہ جھوٹ بولنے میں اپنا فائدہ دیکھتا ھے تو دھڑلے سے جھوٹ بولتا ھے اور دور دور تک اس کی برائی کا تصور بھی نھیں کرتا کیونکہ سچائی میں شر و فتنہ دیکھتا ھے اور جھوٹ بھرحال ایک شر ھے اگر حصول شرائط کے ساتھ جھوٹ بول کر شر کو دفع کیا گیا تو ( یہ مطلب نھیں ھے کہ وہ جھوٹ نیک ھو گیا بلکہ ) اس کا مطلب یہ ھے کہ ایک زیادہ فاسد چیز کو کم فساد والی چیزکے ذریعہ دور کیا گیا ھے ۔
آزادی بیان کی اھمیت آزادی فکر سے بھت زیادہ ھے ۔ کیونکہ اگر افکار میں کسی قسم کی لغزش یا انحراف ھو گیا تو اس کا نقصان صرف فکر کرنے والے کو پھونچے گا لیکن اگر گفتار میں لغزش یا انحراف ھو گیا تو اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑے گا ۔
امام غزالی کھتے ھیں: زبان ایک بھت بڑی نعمت ھے اور پروردگار عالم کا ایک نھایت ھی لطیف و دقیق عطیہ ھے ۔یہ عضو ( زبان ) اگر چہ حجم و جسم کے اعتبار سے بھت ھی چھوٹا ھے لیکن اطاعت و معصیت کے اعتبار سے بھت ھی سنگین و بڑا ھے ۔ کفر یا ایمان کا اظھار زبان ھی سے ھوا کرتا ھے اور یھی دونوں چیزیں بندگی و سر کشی کی معراج ھیں ۔ اس کے بعد اضافہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں ؛ وھی شخص زبان کی برائیوں سے نجات حاصل کر سکتا ھے جو اس کو دین کی لگام میں اسیر کر دے اور سوائے ان مقامات کے کہ جھاں دنیا و آخرت کا نفع ھو کسی بھی جگہ آزاد نہ کرے !
بچوں کے باطن میں جھوٹ جڑ نہ پکڑنے پائے اس کے لئے بچوں سے کبھی بھی جھوٹ اور خلاف واقع بات نھیں کرنی چاھئے کیونکہ بچے جن لوگوں کے ساتھ ھمہ وقت رھتے ھیں فطری طور سے انھیں کی گفتار و رفتار کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرتے ھیں۔ گھر بچوں کے لئے سب سے اھم تربیت گاہ ھے “۔
جھوٹ اور خلاف واقع کا دور دورہ ھو گیا اور والدین کے اعمال خلاف واقع ھونے لگے تو کسی بھی قیمت پر اچھے و سچے بچے تربیت پا کر نھیں نکل سکتے ۔ بقول موریش ۔ ٹی ۔یش : حقیقت کے مطابق سوچنے کی عادت، حقیقت کے مطابق بات کرنے کی سیرت ،ھر سچ و حقیقت کو قبول کرنے کی فطرت صرف انھیں لوگوں کا شیوہ ھوتا ھے جن کی تربیت طفولیت ھی سے اسی ماحول میں ھوئی ھو-