عصمت امام کا اثبات
منصب امامت کا الٰہي ہونا اور حضرت علي عليہ السلام اور پ کي اولاد کا خدا کي جانب سے منصب امامت پر فائز ہونے کے اثبات کے بعد ائمہ ا طہار عليہم السلام کي عصمت کو اِس يت کے ذريعہ ثابت کيا جاسکتا ہے -
'' لَا ينالُ عَہدِ الظَالِمِينَ''(1)
يعني منصب امام صرف انھيں حضرات کے لئے سزاوار ہے جو گناہوں سے لودہ نہ ہوں-
اس کے علاوہ يہ ''اولوا الامر'' (2)جو امام کي اطاعت کو مطلق قرار ديتي ہے اور امام کي اطاعت کو نحضرت غ– کي اطاعت کے مساوي قرار ديتي ہے، اُس کے ذريعہ بھي ائمہ عليہم السلام کي عصمت کو ثابت کيا جاسکتا ہے کيونکہ کسي بھي صورت ميں امام کي اطاعت کو اطاعت خدا کے خلاف قرار نہيں ديا جا سکتا لہٰذا او لوالامر يعني امام کي مطلق اطاعت کا حکم دينا اس کے معصوم ہونے پر دلالت کرتا ہے-
اسي طرح ائمہ ا طہار عليہم السلام کي عصمت کو يہ تطہير سے بھي ان کا معصوم ہونا ثابت کيا جا سکتا ہے:
( اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّہُ لِيُذہِبَ عَنکُمُ الرِجسَ اَہلَ البَيتِ وَ يُطَہِّرَ کُم تَطہِيراً)(3)
اے اھل بيت !(رسول) خدا تو بس يہ چاہتا ہے کہ تم کو (ہر طرح کي ) برائي سے دور رکھے اور جو پاک و پاکيزہ رکھنے کا حق ہے ايسا پاک و پاکيزہ رکھے -
بندوں کي تطہير کا ارادۂ تشريعي، کسي خاص فرد سے مخصوص نہيں ہے، ليکن اہل بيت عليہم السلام کي طہارت کے سلسلہ ميں خدا کا ارادہ، ارادۂ تکويني ہے کہ جس ميں اراد کا ارادہ کرنے والے (خدا ) سے تخلف ممکن نہيں ہے ، جيسا کہ ارشاد ہوتا ہے :
( اِنَّمَا اَمرُہُ اِذَا اَرَادَ شَيءاً اَن يَقُولَ لَہُ کُن فَيَکُونُ).(4)
پس تطہير مطلق اور کسي بھي قسم کي نجاست اور پليدي سے دورري عين عصمت ہے اور ہميں بخوبي معلوم ہے کہ مسلمانو ںميں سے کوئي بھي فرقہ نحضرت غ– کے اہل بيت عليہم السلام کي عصمت کا قائل نہيں ہے فقط شيعہ فرقہ ہے جو حضرت زہراء عليہا السلام اور بارہ اماموں کي عصمت کا قائل ہے-( 5) ( جاري ہے )
حوالہ جات:
(1) سورۂ بقرہ آيت 124.
(2)سورہ نسا-آيت59
(3) سورۂ احزاب آيت 33
(4) سورۂ يس 82.
(5)مزيد وضاحت کے لے تفسير الميزان اور کتاب ''الامامة والولاية في القرآن''. کي طرف رجوع کيا جائے
متعلقہ تحریریں:
لفظ مولا اور آئمہ اکرام
امامت پر بحث کا آغاز