آزادي عدل اور دين
انسان تکويني اور پيدائشي طور پر ايک آزاد موجود اور انتخاب و اختيار کا مالک ہے ليکن اس کے اختيار کي عملداري نامحدود نہيں ہے اور انسان ہر کام نہيں کرسکتا بلکہ اس کا اختيار علت و معلول (Cause & Effect) کے نظام کي حدود اور عالم فطرت پر حکم فرما قوانين کے دائرے تک محدود ہے- انسان جس قدر کہ قوانين فطرت سے آگاہ ہو اور ان سے استفادہ کرنے کے لئے زيادہ سے زيادہ قوت و صلاحيت سے رکھتا ہو، اس کے اختيارات کي حدود اور قوت انتخاب ميں بھي اتنا ہي اضافہ ہوگا- ليکن کيا اس کو يہ اختيار حاصل ہے کہ حتي اپنے علم، قوت اور انتخاب کے امکان کي حدود ميں بھي، جو چاہے وہ کرتا پھرے اور جيسا چاہے برتاۆ کرے يا نہيں بلکہ اس کو اس حال ميں بھي ضوابط اور حدود کو ملحوظ رکھنا پڑے گا؟
ايسا نہيں ہے کہ انسان ہر وہ عمل انجام دے جو وہ انجام دے سکتا ہے- ہر شخص اپني لذت و الم (Pleasure & Pain) يا نفع و ضرر کي بنياد پر اپني تشخيص اور مرضي کے مطابق عمل کرتا ہے؛ مثلاً کبھي آگ ميں نہيں کودتا اور کھائي ميں چھلانگ نہيں لگاتا وغيرہ ---؛ دوسري جانب سے ہم جانتے ہيں کہ معاشرتي حيات ميں، معاشرے کے نظام کي تشکيل اور تحفظ کے راستے ميں محدود کردينے والے عوامل موجود ہيں اور ہر کوئي اپني تشخيص کے مطابق عمل نہيں کرسکتا- اور يہ وہ حدود اور سرحدات ہيں جو انسان کي تکويني آزادي کو محدود کرديتي ہيں- تشريعي، اعتباري، يا اقداري قوانين ـ اخلاق يا حقوق کے دائرے ميں ـ اسي بنياد پر معرض وجود ميں آئے ہيں-
انسان کي فردي اور معاشرتي زندگي کے ہدف کو مدنظر رکھ کر آزادي کو محدود کرنے کے لئے بعض معيارات کا تعين کيا جاتا ہے:
ـ وہ لوگ جو انساني حيات کو دنياوي زندگي ميں محدود سمجھتے ہيں اور اس کے لئے مادي لذتوں سے زيادہ، کوئي ماورائي ہدف تسليم نہيں کرتے، وہ نظري لحاظ سے فرد انسان کي آزادي کے لئے کسي بھي محدوديت کے قائل نہيں ہيں-
منبع:www.rasekhoon.net
به نقل از: دين و آزادي، آيت الله محمد تقي مصباح يزدي، نشر مركز مطالعات و پژوهشهاي فرهنگي حوزه علميه (1381).
ترجمہ : فرحت حسین مہدوی
متعلقہ تحریریں:
خدا کا عدل
عدل و انصاف کي دعوت