آيتوں کا غلط مفہوم نکالنے سے پرہيز کريں
اپنے راستوں کا انتخاب ہمارے ليۓ لازمي ہے يا اختياري ؟
آيات کا غلط مفہوم مت ليں
قرآني آيات کي سمجھ
ه – «لا إِكراهَ فِي الدّين» کا بہانہ بنا کر کہا جاتا ہے کہ عقيدہ ميں آزادي ہے - اس آيت سے پہلے بہت اچھي طرح سے وضاحت کي گئي ہے - اس آيت کا يہ مفہوم نہيں ہے کہ ہر کسي کو اجازت ہے جو مرضي عقيدہ اختيار کر لے يا اس کا جو بھي پہلے سے عقيدہ تھا وہ ٹھيک ہے - اگر ايسا ہوتا تو نہ پيغمبر ارسال ہوتے ، نہ الہامي کتابيں نازل ہوتيں ، نہ قيامت کے بارے ميں کوئي سوال جواب ہوتے ، نہ جنت اور دوزخ کا کوئي تصور ہوتا اور مجموعي طور پر معاشرہ تباہ ہو جاتا - آيت کريم ميں ارشاد باري تعالي ہے کہ تمہيں حيوانات ، گياھان ، ملائکہ ------ وغيرہ کي طرح مجبور تخليق نہيں کيا گيا ہے بلکہ تمہيں برتري دي گئي ، عقل و شعور ديا ، اختيار اور انتخاب ديا ، ارادہ اور قوت فيصلہ ديا ، تمہارے ليۓ رسول ، کتاب و امام (ميزان ) بھيجے گۓ ، تمہارے ليۓ ہدايت کا راستہ واضح کيا گيا - اس ليۓ جس کسي نے جو بھي راستہ اختيار کيا وہ اس کا ذمہ دار ہے ، اپنے نفع اور نقصان کا وہ خود ذمہ دار ہو گا - لہذا اسي آيت کے بعد طاغوت سے اجتناب کو نجات کا راستہ بتايا گيا ہے - اس ليۓ ايسا کيوں ہوتا کہ کسي آيت پر غور و خوض کرنے کي بجاۓ اس کو غلط طريقے سے بيان کرکے اس کے مفہوم کو غلط انداز ميں پيش کر ديا جاتا ہے ؟ ايسا کرنے والے لوگوں کا اصل مقصد عام انسان کو گمراہ کرنا ہوتا ہے -
«لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَينَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَي فَمَنْ يكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيۆْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ»
ترجمه: دين ميں کوئي جبر و اکراہ نہيں، بتحقيق ہدايت اور ضلالت ميں فرق نماياں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ايمان لے آئے، بتحقيق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام ليااور اللہ سب کچھ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے -
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان