"عصر عاشورا"
غير ملکي فن کاروں کے خيالات استاد فرشچيان کے بارے ميں
استاد محمود فرشچيان
استاد فرشچيان کا سب سے مشہور فن پارہ "عصر عاشورا" ہے- وہ خود ہي اس کے بارے ميں کہتا ہے:
انقلاب اسلامي کي کاميابي سے تين سال پہلے يوم عاشورا پر ميري امي نے مجھے نصيحت کرتے ہوۓ کہا روضہ سنو تاکہ چند صحيح الفاظ سن سکو - ميں نے اسے کہا مجھے کچھ کام کرنا ہے اس کے بعد جاۆ ں گا- مجھ پر عجيب حالت طاري ہوئي تھي کمرے کے اندر جاکر قلم اٹھايا شام عاشورا کے بورڈ پر مصوري کرنے لگا- قلم جب رکا تو ايک لازوال شاہکار بن گيا جو اب بھي بغير تبديلي کے موجود ہے -
"غدير" اور "کوثر" محمود فرشچيان کے سب سے نئے فن پاروں کے نام ہيں- "غدير" کي تخليق کے لئے تين سال لگ گۓ اور "کوثر" کو بنانے ميں چھ مہينوں تک مصروف تھا- پہلا تابلو سنہ 1385 ہ-ش اور دوسرا سنہ 1386 ہ-ش مکمل ہوا -
اثر غدير استاد فرشچيان بيانگر داستان واقعه غديرخم و معرفي حضرت علي (ع) به امامت مردم از جانب حضرت محمد (ص) است و تابلو کوثر که استاد آن را نذر موزه امام هشتم (ع) کرده است شامل تصوير حضرت زهرا (س) به صورت زني نوراني به همراه 3 زن ديگر حضرت مريم، حضرت خديجه و حضرت آسيه است که بيانگر شفاعت روز قيامت گناهکاران مي باشد.
استاد فرشچيان کا يہ مصوري نمونہ "غدير" غدير خم کا حقيقي واقعہ سناتا ہے اور حضرت علي (ع) کا تعارف کراتا ہے اور "کوثر" کو انہوں نے امام رضا (ع) ميوزيم کو نذرانہ پيش کيا اور وہ مصوري کہ جس ميں حضرت زہرا (س) جيسي نوراني خاتون، تين اور خواتين کے ساتھ (حضرت مريم، حضرت خديجہ اور حضرت آسيہ سلام اللہ عليہما) جس ميں استاد اس بات کو بيان کرنا چاہتا ہے کہ قيامت والے دن يہ خواتين گنہکاروں کي شفاعت کرنے والي ہيں-
اس کے کچھ فن پاروں کا نام درج ذيل ہيں :
ضامن آہو (ہرن کا ضامن) : امام رضا کے چہرے کي مصوري
پيدائش کا پانچواں دن: اس فن پارے ميں يہ بتايا ہے کہ سارے زميني اور آسماني موجودات اللہ کے پوجا کرنے والے ہيں-
عصر عاشورا
طراحي ضريح امام رضا
اس کا سب سے آخري تابلو "کوثر" جناب فاطمہ زہرا (س) کے نام سے ہے-
1379 ه.ش: اس کا نام اکيسويں صدي کے روشن خيالوں کي فہرست ميں داخل ہوا-
1372 : فن کا درجہ اول تمغہ
1364: آسکر کا سنہرا مجسمہ، اٹلي
1363: فن کا يورپي سنہرا مجسمہ، اٹلي
1362: يورپ آکيڈميک کا ڈپلومہ، يورپ کي اکيڈمي، اٹلي
1361: آڑٹ يونيورسٹي کا صلاحيت ڈپلومہ، اٹلي
1360: آڑٹ اکيڈمي کا سنہرا تمغہ، اٹلي
1352: فن اور ثقافت کا پہلا انعام، ايران
1337: فن کے بين الاقوامي فيسٹيول کا سنہرا تمغہ، بيلجيم
1331: فوجي فن کا سنہرا تمغہ، ايران
ختم شد۔
ترجمہ: آنا حميدي
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان