معاشرے ميں تلاوت قرآن کے اثرات
عوام قرآن سے سبق حاصل کريں
قوميں قرآن کي محتاج ہيں
آج اگرہم معاشرے کي قرآني تحريک کو زندہ رکھنا چاہتے ہيں تو لازم اور ضروري ہے کہ عوام کے درميان قرآن مجيد بھي بشکل تلاوت زندہ رہے- يہ کافي نہيں ہے کہ مجلس شوريٰ اسلامي حکومت اسلامي اور ان سب سے بڑھ کر حضرت امام امت کے بيان و سخن ميں قرآن مجيد زندہ متجلي رہے اس کے ساتھ ساتھ خود عوام کے درميان بھي قرآن کا زندہ رہنا ضروري ہے- ہمارے معاشرے ميں قرآني تحريک اس وقت گزند سے محفوظ ہوگي جب عوام مکمل طور پر قرآن سے شنا ہو جائيں گے- لہٰذا ضروري ہے کہ معاشرے ميں درس قرآن، تلاوت قرآن، معارف قرآن اور علوم قرآن کي نشرو اشاعت کاسلسلہ اسي طرح جاري رہے-
قرآن کي مجلسوں ميں اضافہ ہو، مختلف ميدانوں ميں اس قسم کے مقابلے متعقد ہوتے رہيں- يہ پسنديدہ عمل ہے، عوام کو اس کي قدر کرني چاہئے اور اس قسم کے کاموں ميں بڑھ چڑھ کر حصہ لينا چاہئے- جو حضرات تعليم قرآن کي صلاحيت رکھتے ہيں وہ اسے فريضہ سمجھيں- مدرسوں اور اسکولوں ميں تعليم قرآن کي بنياد و اساسي درس کي حيثيت ملني چاہئے- ہم اپنے ئين ميں عربي زبان کي تعليم کو حکومت جمہوري اسلامي پر فر ض قرارديا ہے- اس کاکيا مقصد تھا؟ پ کو پتہ ہے کہ دنيا ميں کسي اسلامي ملک ميں ميٹرک تک عربي زبان کي تعليم لازمي نہيں ہے- يہ صرف ہمارے قانون کا امتياز ہے-
کيوں، اس کا مقصد کيا تھا؟
ہميں قرآن کے بغير عربي زبان کي کيا ضرورت ہے؟ عربي اس لئے کہ معزز و محترم ہے کہ وہ زبان قرآن ہے-ميںنوجوانوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے سن و سال کي قدر جانيں جو حفظ قرآن کے لئے نہايت مناسب ہے- قرآن کو حفظ کريں- اگر ميرے پاس کوئي معنوي دولت و ثروت ہوتي تو ميں اس کے بدلے حفظ قرآن ک حاصل کرنے کے لئے تيا تھا- حفظ قرآن ايک عظيم نعم الٰہي ہے- قرں جس شخص کے ذہن ميںموجود ہے وہ ہميشہ قرآن کے ہمراہ ہے، اسے چاہئے کہ خدا کي عطا کردہ اس عظيم نعمت کے بدلہ ميں خدا کا شکر ادا کرے-
آج ہمارے نوجوانوں اور بچوں کے لئے ميدان ہموار ہے، حفظ قرآن کے لئے کسي قسم کي رکاوٹ نہيں- قرآن کو خود حفظ کيجئے اور اپنے بچوں کو حفظ قرآن پر مادہ کيجئے-
مصنف : سيدعلي خامنہ اي مدظلہ العالي
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان