بصيرت و فکري رشد
دونوں امام (امام حسن عليہ السلام اور امام زمانہ عج) کے حقيقي چاہنے والوں اور دوستوں کي ايک اور مشترکہ خوبي " بصيرت و فکري رشد " ہے - حضرت امام حسين (ع) کے اصحاب و اہل بيت ، خداوند متعال کي حجت اورحق و باطل کے درميان فرق کي گہري شناخت اور بصيرت کے ہمراہ ، امام کے ساتھ متصل ہوئے - ان کا جھاد اور قيام ، تربيتي مکتب اور يقين واعتقد کي بنياد پر پروان چڑھا اور اس ميں قومي تعصبات ، دشمن کي طرف سے اکسانے اور باطل حريف و منحرف جماعت کي دھوکہ بازي کا کوئي بھي شائبہ موجود نہيں تھا !-
" جناب هلال بن نافع " شب عاشورا امام حسين(ع) کي فرمائشوں کے بعد کھڑا ہوا اور کہنے لگا :
" وَ اَنَّا عَلَي نِياتِنا وَ بَصائِرِنا " ؛ يقيناً ہم اپنے اردوں اور بصيرتوں پر ثابت قدم ہيں " -
" جناب عابس بن شبيب " بھي جب امام حسين (ع) کي خدمت ميں پہنچا تو کہا :
سلام ہو تم پر اے اباعبدالله ، خدا، گواه بناتا ہوں کہ ميں تمہارے اور تمہارے والد کے دين پر ہوں! -
امام حسين(ع) کے اصحاب نے نہ صرف اپنے امام سے ہاتھ واپس نہيں ليا اور دشمن سے مل نہيں گئے ، بلکہ " دشمن کي شناخت " اپنے افتخاروں ميں سے ايک افتخار کے طور پر بيان کرتے تھے - " جناب بُرَير" دشمن کے سپاہي سے گفتگو کے وقت اسے کہتے ہيں :
" الحمدُ اللهِ الذي زَادَنِي فِيكُم بَصيرَه " ؛ اس خدا کا شکرجس نے تم لوگوں کے بارے ميں ميري بصيرت اور شناخت ميں اضافہ فرمايا " -
امام زمان (عج) کے حقيقي دوست بھي بصيرت ، شناخت اور عقلمندي کے مالک اور مظھر ہيں ، ان فتنوں ميں جن ميں بڑے بڑے ہوشيار اور ذہين افراد ڈوب جاتے ہيں ، وہ ان ميں بڑي ہي ہوشياري اور احتياط کے ساتھ قدم بڑھائے گے اور حق ، باطل سے جدا کرکے پہچاننے گے - اہداف اور مقاصد کے تئييں ان کي اپني گہري بصيرت اور شناخت ، اس بات کا باعث بنے گي کہ وہ اپنے امام کي اطاعت کرنے ، ديني سنتوں کو احياء کرنے اور بدعتوں اور خرافات کے ساتھ لڑنے کي راہ ميں کوئي کوتاہي نہيں بھرتے گے ، نيز شرک کي آلودگي ختم کرنے کي رسالت ميں ، اپنے امام کے شانہ بہ شانہ بت شکني کا کردار نبھائے گے اور وہ اور وہ انحرافات ، بدعات اور خرافات جو دين کے نام سے لوگوں کے ذہنوں ميں پختہ ہوچکے ہے اور زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ مقدس ، محترم اور معتبر بن چکے ہے ، انہيں نابود کر دے گے -
حضرت مهدي (عج) کے حقيقي چاہنے والے اپنا امام اچھي طرح پہچانتے ہيں اور اس کا عقيدہ رکھتے ہيں ، ايسا عقيدہ جو ان کے وجود کے عمق ميں اپني راسخ جڑ بنا چکا ہے اور ان کے ساري جان کو اپنے اندر لپيٹا ہوا ہے - يہ معرفت ، اجمالي اور مختصر شناخت نہيں ہے بلکہ امام کے حق (حق و باطل کا معيار ) ہونے کي شناخت ہے - اس بارے ميں امام معصوم (ع) کي طرف سے بہترين اندازميں فرمايا گيا ہے : " اگر ميں اسے درک کرليتا ( يعني اس زمانے ميں موجود ہوتا) تو ساري عمر اس کي خدمت کرتا " ! -
يہ صورتحال اس وقت ہے جب بعض افراد امام زمان (عج) کي غيبت ، طولاني ہوجانے کي وجہ سے حيرت زدہ اورگمراه ہوجائے گے - حضرت امام علي (ع) اس بارے ميں فرماتے ہيں :
" تَكونُ لَهُ حِيرهٌ و غبيهٌ يُضلُّ فِيها اَقوامٌ وَ يَهتَدي فِيها آخَرون ؛ مھدي کي غيبت کي وجہ سے حيرت زدگي پيدا ہوجائے گي - ، ايک جماعت گمراہ ہوجائے گي اور ( دوسري ) ايک جماعت ہدايت ( کي راہ اوراپنے دين پر ) باقي رہے گي - "
حضرت وليعصر (عج) کے پروگراموں ميں سے ايک اقدام اجتماعي فکري اورعقلي رشد کو پروان چڑھانا ہے اس لئے کہ عالمي حکومت کي تشکيل يابي کے لئے اجتماعي عقلي اور فکري سطح کا ، مطلوبہ ليول تک بڑھاوا دينا ضروري ہے - حضرت امام صادق (ع) اس کے متعلق فرماتے ہيں :
" جب ہمارا قائم قيام کرے گا ، وہ اپنا ہاتھ بندوں پر رکھے گا اور ان کے عقليں مرکوز بنا دے گا اور ان کے اخلاق کمال (کي حد) تک پہنچائے گے " ! -
اجتماعي فکري اورعقلي رشد بڑھانے کا ايک اہم مصداق اور نمونہ ، " بصيرت " ہے کہ ابتداء ميں ضروري ہے حضرت کے حقيقي چاہنے والے اور دوست اس سے بہرہ مند اور مالامال ہوجائے تا کہ عقلي دنيا کا نفاذ اورعدالت و حکمت سے لبريزفرمانروائي قائم کرنے ميں اپنے امام کي مدد کرسکے ! -
بشکريہ اھل البيت ڈاٹ او آر جي
پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
حضرت امام مھدي عليہ السلام کے ظہور کي نشانياں