آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے سرپرست 15
اس بحث کے آخر ميں زمخشري کے قول کا جائزہ ليتے ہيں- (زمخشري اہل سنت کے بڑے مفسرين ميں شمار ہوتے ہيں جنہوں نے اپني تفسير الکشاف ميں اس آيت کي تفسير بيان کي ہے)-
لکھتے ہيں: "پس اگر ہم کہيں: يہ کيونکر صحيح ہے کہ يہ لفظ (الذين آمنوا) حضرت علي (رضي اللہ عنہ) کي شان ميں آيا ہے جبکہ يہ لفظ جمع کي صورت ميں لايا گيا ہے، تو اس کا جواب يوں دوں گا کہ: اس کے باوجود کہ اس کے نزول کا سبب ايک ہي فرد ہے ليکن جمع کي صورت ميں نازل ہوئي تا کہ خداوند متعال لوگوں کو اس ايک فرد کے اس عمل کي رغبت دلائے تا کہ وہ بھي اس فرد کي طرح ثواب کما سکيں اور خداوند توجہ دلائے کہ مؤمنين کي عادات واطوار غرباء سے تعلق، نيکي، احسان اور ان کے مسائل حل کرنے حوالے سے اس درجہ کمال پر ہونے چاہئيں کہ اگر نماز ميں بھي کسي دوسرے نيک کام کا موقع ميسر آجائے تو وہ اس کو ضائع نہ کرے- (حضرت اميرالمؤمنين اگر نماز کي حالت ميں انگشتري نہ ديتے تو نيکي کا يہ عمل مؤخر ہوجاتا چنانچہ) مؤمنين کو نيکي کا ايسا کوئي کام نماز مکمل ہونے تک بھي مؤخر نہيں کرنا چاہئے"-
رسول اللہ (ص) اور اميرالمؤمنين (ع) کي ولايت کي نوعيت
مزيد غور و تأمل کرکے اس آيت سے يہ بات بھي سمجھي جاسکتي ہے کہ اس کے باوجود کہ اپنے بعد مؤمنين کي ولايت کو حضرت رسول (ص) اور حضرت علي (ع) کے لئے قرار دي ہے ليکن آيت ميں "اوليائکم = تمہارے اولياء" کے بجائے "وليکم = تمہارا ولي و سرپرست" کا لفظ استعمال کيا ہے جو مفرد ہے-
ولي کا کلمہ مفرد استعمال کرنے سے اس حقيقت کا ادراک کيا جاسکتا ہے کہ خداوند متعال نے اپني ولايت اپني ذات سے سلب کئے بغير حضرت رسول صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور حضرت اميرالمؤمنين عليہ السلام کے سپرد کي ہے جس کا مطلب يہ ہے کہ حضرت رسول (ص) اور حضرت اميرالمؤمنين (ع) کي ولايت کي نوعيت و ماہيت اللہ ہي کي ولايت کي نوعيت و ماہيت ہے- ---