آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے سرپرست 13
وہ يوں کہ خداوند متعال بالواسطہ طور پر مؤمنين سے مخاطب ہو کر ارشاد فرماتا ہے کہ: اگرچہ تم مؤمنين کي سرپرستي کے عہدے پر فائز نہيں ہوسکو گے ليکن يہ پسنديدہ عمل انجام دينے کي کوشش ضرور کرسکتے ہو اور زکواة دينے کا فريضہ نماز ادا کرنے کي وجہ سے مؤخر نہ کرو کيونکہ يہ عمل اللہ کے نزديک پسنديدہ عمل ہے اور اللہ اس سے خوشنود ہوتا ہے-
لفظ جمع اور مراد فرد واحد
يہاں اس اہم اہم نکتے کي طرف بھي توجہ دينا ضروري ہے کہ اس آيت ميں مؤمنين کو جمع کي صورت ميں ذکر کيا گيا ہے- اب ممکن ہے کہ يہ سوال اٹھايا جائے کہ "يہ لفظ جمع کي صورت ميں کيوں آيا ہے جبکہ کہا کيا کہ مؤمنين (الذين آمنوا ---) سے مراد حضرت علي عليہ السلام ہيں-
يہاں اس نکتے کي طرف اشارہ کرنا ضروري ہے کہ لسان عرب ميں مفرد لفظ ايک شخص سے زيادہ کے لئے نہيں آنا چاہئے ليکن برعکس جائز ہے اور صيغۂ جمع يا لفظ جمع مفرد کے لئے استعمال ہونا صحيح ہے-
بايں معني کہ کلمہ بصورت جمع آيا ہے جبکہ اس سے مراد ايک فرد ہے- قرآن مجيد ميں اس کي متعدد مثاليں پائي جاتي ہيں مثال کے طور پر قرآن مجيد ميں ارشاد ہوا ہے:
"وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُؤُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ"- (9)
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تمہارے لئے پيغمبر خدا دعائے مغفرت کر ديں تو وہ اپنے سر گھماتے ہيں-
"هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَى مَنْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنفَضُّوا ---"- (10)
"وہي وہ ہيں جو کہتے ہيں کہ روپيہ پيسہ نہ دو ان لوگوں کو جو رسول خدا کے پاس ہيں تا کہ يہ لوگ منتشر ہو جائيں..."-
ان دو آيتوں ميں خداوند متعال نے منافقين کے لئے ايک حکم عام بيان فرمايا ہے جو تکبر اور نخوت کي بنا پر رو گرداني کرتے ہيں اور کہتے ہيں کہ رسول اللہ کے اصحاب پر انفاق نہ کرو---