• صارفین کی تعداد :
  • 1691
  • 3/22/2012
  • تاريخ :

آيت ولايت کے مخالفين کا جواب 6

بسم الله الرحمن الرحیم

جواب:‌

عربي ادب ميں بارہا ديکھا جاتا ہے کہ مفرد کے لئے جمع کا صيغہ استعمال ہوا ہے جيسے ہم آل عمران کي آيت 61 (آيت مباہلہ) ميں "نسائنا" کا لفظ جمع کا لفظ ہے جبکہ اس کا مصداق ـ شيعہ اور سني تفاسير ميں منقولہ روايات کے عين مطابق ـ حضرت سيدہ فاطمہ سلام اللہ عليہا ہيں- اسي طرح اس آيت ميں "انفسنا" کا لفظ جمع کي صورت ميں بيان ہوا ہے اور اس لفظ کا مصداق شيعہ اور سني روايات کے مطابق اميرالمؤمنين عليہ السلا ہيں اور مباہلے ميں رسول اللہ کے ساتھ صرف علي عليہ السلام نفس رسول (ص) کي حيثيت نظر آئے ہيں- ‌

نيز سورہ مائدہ کي آيت 52 ميں ارشاد ہوتا ہے: "يَقُولُونَ نَخْشَى أَن تُصِيبَنَا دَآئِرَةٌ"؛ (کہتے ہيں ہميں ڈر ہے کہ ہم پر کوئي آفت نہ آئے) "يقولون = (کہتے ہيں)"، جع کا لفظ ہے جبکہ يہ آيت ايک شخص "عبداللہ بن ابي" کے بارے ميں نازل ہوئي ہے---

لہذا يہ تعبير يا تو اس لئے ہے کہ اس فرد کے مقام و منزلت کا اظہار ہو يا متعلقہ معاملے ميں اس فرد کا بنيادي کردار بيان کيا جائے يا پھر اس لئے ہے کہ حکم کلي طور پر بيان کيا جاسکے اور کو ايک خاص زمانے کے لئے محدود نہ کيا جائے اگرچہ اس کا مصداقِ اَوَّلي فرد واحد ہے- نيز بہت سے آيات قرآني ميں خداوند متعال نے اپنے لئے جمع کا صيغہ استعمال فرمايا ہے جبکہ خدا احد و واحد ہے اور متعلقہ آيات ميں جمع کا صيغہ تعظيم کے لئے استعمال ہوا ہے- (13) (14)

-------------

مآخذ:

13- تفسير نمونه، ج4، ص 427-

14- ہميں حکم ہے کہ اللہ کے لئے جمع کا صيغہ استعمال نہ کريں اور يہ کہ تفاسير ميں ہے کہ گويا اللہ جہاں جمع کا صيغہ استعمال کرتا ہے وہاں مراد اللہ اور اس کے خاص بندے جو دين کي حفاظت يا قرآن کے تحفظ ميں اللہ کا ساتھ دے رہے ہيں جيسے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ؛ بلاشبہ ہم نے اس قرآن کو اتارا ہے اور يقينا ہم اس کي حفاظت کرنے والے ہيں- (سورہ حجر آيت 9)-