آيت ولايت کے مخالفين کا جواب 4
3- عمر بن خطاب سے منقول ہے کہ: اللهِ لَقَدْ تَصَدَّقْتُ بِاَرْبَعينَ خاتَماً وَ اَنَا راکِعٌ لِيَنْزِلَ فِيَّ ما نَزَلَ في عَلِيِّ بْنِ اَبي طالِبٍ فَما نَزَلَ؛8) ) خدا کي قسم ميں نے چاليس انگشترياں حالت رکوع ميں دے ديں کہ وہي کچھ ميرے حق ميں نازل ہوجائے جو علي (ع) کے حق ميں نازل ہوا ليکن نازل نہيں ہوا-
مرحوم طبرسي رحمه اللہ نے کہا ہے: هذا الآيه من أوضح الدلائل علي صحه امامه علي عليه السلام بعد النبي بلافصل؛9 يہ آيت ان واضح ترين دلائل ميں سے ايک ہے جن سے رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے بعد امام اميرالمؤمنين علي عليہ السلام کي امامت بلافصل ثابت ہوتي ہے- (9)
دوسري آيت کي تفسير
آيت 56 ميں ارشاد ہوتا ہے: "وَمَنْ يتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ"
ان دو آيتوں (سورہ مائدہ کي آيات 55 اور 56) کے اتصال و ارتباط سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آيت ميں "الذين آمنوا" (وہ لوگ جو صاحب ايمان ہيں) سے مراد وہي ہے جس کي طرف آيت 55 ميں اوصاف و خصوصيات بيان کرکے اشارہ ہوا ہے- (10)
سائل کي صدا سننا اور اس کي مدد کا اہتمام کرنا، اپني طرف يا دنيا کے امور کي طرف توجہ دينے کے زمرے ميں نہيں آتا بلکہ حقيقتاً خدا کي طرف توجہ ہے- حضرت اميرالمؤمنين عليہ السلام نماز کي حالت ميں اپني ذات اور دنياوي امور سے بيگانہ تھے ليکن خدا سے نہيں بلکہ آپ (ع) کي پوري توجہ خداوند متعال کي ذات پر مرکوز ہوا کرتي تھي؛ اور ہم جانتے ہيں کہ خلق خدا سے بيگانگي درحقيقت خدا سے بيگانگي ہے؛ بالفاظ ديگر نماز ميں زکواة کي ادائيگي ايک عبادت کے ضمن ميں دوسري عبادت ہے اور يہ عمل عبادت کے ضمن ميں ايک مباح عمل انجام دينے کے زمرے ميں نہيں آتا-
-------------
مآخذ:
8- تفسيرنور الثقلين، ج1، ص648، ذيل حديث 269؛ البرهان، ج2، ص 318، ذيل حديث 3167-
9- تفسير مجمع البيان، طبرسي، ج3، ص326-
10- تفسير البيان في الموافقه بين الحديث و القرآن، ج3، ص 305