آج کے دور کا مسلم نوجوان اور ذمہ دارياں
اسلامي تاريخ ميں مسلمانوں نوجوانوں نے زندگي کے ہر ميدان ميں قابل قدر قربانياں ديتے ہوۓ اور جدوجہد کرتے ہوۓ بےمثال کاميابياں حاصل کي ہيں - آج کے دور ميں ايمان کي تاثير سے دوري کي بنيادي وجہ نوجوان نسل کا ايمان کے معني و مفہوم سے ناواقف ہونا اور بحيثيت مجموعي امت مسلمہ کا ايمان کي حفاظت، اس کے تقاضے اور شرائط کو پورا نہ کرنا ہے- علاوہ ازيں اسلام دشمن طاقتوں کي نظرياتي، ثقافتي اور جذباتي سہ جہتي يلغار بھي امت مسلمہ کي بالعموم اور نوجوان نسل کي بالخصوص ايمان کي تاثير سے محرومي کا سبب بن رہي ہے- کيونکہ نظريہ کسي بھي قوم، مذہب، تحريک يا تنظيم کے لئے اساسي درجہ رکھتا ہے- اور يہ حقيقت ہے کہ اقوام نظريے کي بنياد پر بنتي اور قائم رہتي ہيں- جونہي نظرياتي اساس کمزور ہوئي، زوال و انتشار قوموں کا مقدر بن جاتا ہے-
اس کي ايک سادہ اور عام فہم مثال يہ ہے کہ ايک درخت کي نشوونما کا دارومدار اس کي جڑ پر ہوتا ہے، اور جڑ ہي درخت کي زندگي اور تروتازگي کا ذريعہ ہے اگر جڑ ميں نقص واقع ہو جائے تو درخت مرجھانا شروع ہو جائے گا پھر رفتہ رفتہ اس کے پتے، ٹہنياں، پھل، پھول جس حالت ميں ہوں گے بوسيدہ ہو کر زمين پر گر پڑيں گے- اگر جڑ مضبوط ہو تو پودا توانا اور پھلدار ہو گا، اس سے خوراک حاصل کرنا دوسروں کے لئے حيات بخشي کا سامان بنے گا- بات ساري تاثير کي ہے، جس طرح درخت ميں ساري تاثير جڑ اور تنے کي ہوتي ہے، تاثير اچھي ہو گي تو درخت پھل پھول بھي اچھے دے گا اور اگر تاثير ميں نقص واقع ہو جائے تو درخت خشک ہو جائے گا يہاں تک کہ لوگ اس کو کاٹ کر ختم کر ديں گے- اسي طرح نظريہ بھي قوموں کے ثقافتي، تہذيبي، مذہبي اور معاشرتي بقا اور سلامتي کي علامت ہوتا ہے-
لہٰذا اگر موجودہ دور ميں امت مسلمہ ايمان کي حلاوت پانا اور بحيثيت مجموعي ترقي کرنا چاہتي ہے تو اسے اپنے بنيادي نظريات اپنا کر اپني زندگي کو اسلامي تعليمات کے سانچے ميں ڈھالنا ہو گا وگرنہ گمراہي و پستي اور ذلت و غلامي اس کا مقدر بن جائے گي- جيسا کہ قرآن حکيم ميں ہے :
إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ.
الرعد، 13 : 11
’’بے شک اللہ کسي قوم کي حالت کو نہيں بدلتا يہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ ميں خود تبديلي پيدا کر ڈاليں-‘‘
شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان