اسلامي فرقے اور غاليوں کے انحرافات
تشيع کي راہ کبھي بھي مشکلات و سختيوں سے خالي نہيں رہي، جيسا کہ گذر چکا ہے کہ سلاطين، شيعوں اور ان کے اماموں پر بہت سختي کرتے تھے اور يہ حضرات مجبور تھے کہ تقيہ کي صورت ميں زندگي بسر کريں اور ائمہ بھي ہميشہ حقائق کو علي الاعلان بيان نہيں کرسکتے تھے کيونکہ موجودہ حکومت مد مقابل کھڑي تھي، ايسے حالات ميں شيعوں پر سختي اور دباؤ کا خطرہ تھا، انھيں اسباب کے سبب اس وقت کے بعض شيعہ حيران و سرگرداں ہوگئے تھے، ايسے وقت ميں بعض روحاني مريض اور گنجلگ مقاصد کے علم بردار افراد نے ان پر غلبہ حاصل کرليا، اس کا دوسرا سبب ان عوام کا علم سے ناواقفيت تھي، جو مسير تشيع سے انحراف کا مکمل سبب بني اور بعد ميں آنے والے مسلمين پر اثر انداز ہوئي اور خوراج، معتزلہ، جہميہ، مرجئہ اور ان کے مانند فرقوں کي صورت ميں وجود ميں آئے-
يہ سب آيات الٰہيہ کي غلط تاويل کرنے اور احاديث نبوي کي غلط تشريح کرنے کے سبب ہوا، اس کے علاوہ خطرناک مسئلہ بعض مسلمان نما افراد کا اہل کتاب اور دوسرے مذاہب کے افراد کے ہاتھوں کھلونا بننا تھا جس کے سبب اسرائيليات داخل ہوئيں اور مسلمانوں کو ان کي تعليم بھي دي گئيں جن دنوں حديث کو گڑھا جا رہا تھا ان دنوں يہ اتفاقات وجود ميں آئے-
جو چيز دوسرا رخ اختيار کر گئي وہ يہ تھي کہ ان ميں سے بعض افراد نے احاديث کي تخليق اور آيات قرآني کي غلط تاويل، صرف اپنے مذہب کي تقويت کے لئے کيا، يہ سب اس لئے ہوا کہ بعض افراد اپنے دعويٰ ميں حد سے گذر گئے اور اس بات کا دعويٰ کر بيٹھے کہ انھيں کا وہ واحد فرقہ ہے جو حق و حقيقت سے لبريز ہے اور بقيہ سارے فرقے گمراہي ميں غرق ہيں-
اس تنگ و تاريک نظريہ کے تحت تمام مسلمانوں کے کفر اوران کے خون حلال ہونے، ان کي نسلوں کو ختم کرنے، ان کي عورتوں کو کنيز بنالينے کي گونج بہت دور تک سنائي دي نيز ان فرقوں کے بيچ کلامي جنگيں بھي بہت ہوئيں اور انھيں عصبيت کے سبب بہت سارے مفاہيم گڈمڈ ہوگئے اور اصطلاحات گنجلک اور بہت ساري ايسي چيزوں کا نام رکھ ديا گيا جن سے ان کا کوئي ربط نہيں تھا-
اس مسئلہ کے تحت مذہب اہل بيت بڑي مشکل سے دوچار ہوا، ايسے ميں بہت سارے فرقے اور فاسد عقائد کے دہشت گرد، مذہب حق ميں گھس گئے اس کي کوئي خاص وجہ نہيں تھي صرف يہ کہ و ہ لوگ ولايت اہل بيت کے نام ليوا تھے ہر چند کہ يہ لوگ اہل بيت کے مطمع نظر کے يکسر مخالف تھے، ان ميں سے ”غاليوں“ کا گروہ ہے جن کو ائمہ اہلبيت کي جانب نسبت ديدي گئي ہے جب کہ ان کو شريعت و عقل اور خود ائمہ نے قبول نہيں کيا ہے-
ان تمام اسباب کے تحت نيز حکومت ہاتھ آنے کے لئے جنگ کے سبب مفاہيم خلط ملط ہوگئے، جس کا نتيجہ يہ ہوا کہ فرقوں کے صاحب کتاب مولفين کے نظريات کے درميان بڑي معرکہ آرائي ہوئي ہے خاص طور سے شيعوں کے سلسلہ ميں، ان مولفين کي آراء جو شيعوں کي تعداد کے سلسلہ ميں ہے بالکل اتفاق نہيں پائيں گے، کچھ نے گھٹا کے تين کرديا، کچھ نے بيس سے زيادہ شمار کرديا اور اسي طرح کي کھينچا تاني لگي رہي ہے ان ميں سے بعض ايسے فرقے ہيں جن کا کوئي وجود ہي نہيں ہے، بعض مولفين نے شخص کو فرقہ کي صورت ميں پيش کرديا ہے-
ہشاميہ، يونسيہ، زراريہ، يہ سب فرد تھے ليکن شہرستاني، صاحب کتاب (ملل و نحل) نے ان سب کو فرقہ کے طور پر ذکر کيا ہے اور ان کے خاص نظريات کو پيش کيا ہے، بعض مولفين نے دوسرے مذہب کي تحقير کے لئے اور علم و فضل سے خالي ہونے کے لئے بہت عصبيت سے کام ليا ہے-
جيسا کہ بغدادي کہتا ہے کہ خدا کے فضل و کرم سے خوارج، رافضي، جہميہ، قدريہ، مجسّمہ اور سارے گمراہ فرقوں ميں نہ ہي کوئي فقہ و رايت و حديث کا امام ہے اور نہ ہي لغت و علم نحو کا عالم و امام، نہ ہي غزوات و تاريخ و سيرت کا لکھنے والا ہے اور نہ ہي وعظ و نصيحت کہنے والا، اور نہ ہي تفسير و تاويل کا امام موجود ہے بلکہ ان سارے علوم کا اعم و اخص طور پر جاننے والے صرف اہل سنت و الجماعت ميں موجود ہيں-
ان ساري باتوں کو صرف عناد، دشمني، کدورت اور کٹ حجتي پر محمول کيا جاسکتا ہے کہ وہ دوسرے افراد ميں آثار اسلامي کے معلومات کا سرے سے انکار کرتے ہيں، جبکہ علماء اسلام کے حديثي، تاريخي، تاليفات ہر فرقہ ميں موجود ہيں جس کي گونج سارے کائنات ميں ہے-
بطور نمونہ وہ مولفين جنھوں نے اس ميں خلط ملط کياہے، جيسي کہ وہ تقسيم جس کو ابو الحسن علي بن اسماعيل اشعري متوفي 324ھء نے اپني کتاب ”مقالات الاسلاميين و اختلاف المصلين“ ميں فرقہ شيعہ کو پہلے بنيادي طور پر تين قسموں پر تقسم کيا ہے، پھر اس ميں دوسرے فرقہ کي شاخ نکالي ہے، اس کے بعد ”غلو“ کرنے والوں کو پندرہ فرقوں ميں تقسم کيا ہے، پھر اماميہ کا تذکرہ کيا ہے اور ان کو رافضہ کے نام سے ياد کيا ہے پھر ان کو چوبيس (24) فرقوں ميں تقسيم کيا ہے، کيسانيہ کو انھوں نے اماميہ ميں شريک و شمار کيا ہے، درحقيقت يہ ”غلاة“ کا ايک فرقہ ہے اماميہ سے ان کا کوئي سرو کار نہيں، پھر زيديہ کا تذکرہ کيا ہے اور ان کو تين گروہوں ميں تقسيم کياہے، جاروديہ، بتريہ، سليمانيہ پھر ان گروہوں کو دوسرے گروہوں ميں تقسيم کياہے، اکثر افراد نے غلطي کي ہے اور سليمانيہ کو زيديہ کے فرقوں ميں شمار کيا ہے، جب کہ ان کے سارے عقائد اہل سنت و الجماعت سے بہت زيادہ مشابہ ہيں-
افسوس اس بات پر ہے کہ اس عصر کے اکثر مولفين نے اس روش کي مکمل پيروي کي اور ان گذشتہ کتابوں پر اندھا بھروسہ کيا اور تحقيق و تفحص سے بالکل کام نہيں ليا، کسي فرقہ يا گروہ کے مباني و مصادر کي طرف بالکل رجوع نہيں کيا تاکہ ان گروہ کے ذمہ داروں کي زبان سے ان کے عقائد کو جان سکيں، بلکہ مخالف فرقہ کے مقالات پر تکيہ کيا اور جو کچھ انھوں نے جھوٹ کو سچ بنا کر پيش کرديا اس کو آنکھ بند کر کے قبول کرليا-
ان ساري باتوں کو پيش کرنے کا ہمارا اصل مقصد يہ ہے کہ ہم اصل شيعيت کے وجود کو جان سکيں جو کہ ہمارا اصل موضوع ہے يعني (شيعيت کي نشو و نما) لہٰذا ہم اس بات کي حتي الامکان کوشش کريں گے کہ زمانوں کا اصل اثر ثابت کرسکيں جو شيعيت پر بيتے ہيں اور اس حقيقت سے پردہ اٹھا سکيں جس کو صاحبان کتب نے ڈالا ہے اور شيعہ عقائد ميں ان تمام خرافات کو شامل کردياہے جو ان کے عقائد سے بالکل ميل نہيں کھاتے اور نہ ہي شيعہ حضرات ان عقائد کو کسي بھي رخ سے قبول کرتے ہيں-
لہٰذا ہم پہلے مفہوم تشيع کو بيان کريں گے اس کي بعد اس کے اہم بنيادوں کو وضاحت کے ساتھ پيش کريں گے اس کے بعد شيعہ اور ان کے ائمہ کے موقف کو غلو اور غلاة (غلو کرنے والوں) کے سلسلہ ميں عرض کريں گے-
مصنف: صباح علي بياتي
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان