دو ثقافتوں کا ٹکراۆ
يہ اسلامي ثقافت نہيں ہے جسے اپنے موقف کا دفاع کرنا ہے، دفاع تو مغرب کي انحطاط پذير ثقافت کو کرنا چاہئے- خاتونوں کے سامنے جو بات ہم پيش کرتے ہيں اس کا کوئي بھي با شعور اور منصف مزاج انسان منکر نہيں ہو سکتا- ہم خاتون کو عفت، عصمت، حجاب، مرد و زن کي حد سے زيادہ آميزش سے اجتناب، انساني وقار کي حفاظت، غير مردوں کے سامنے سجنے سنورنے سے گريز کي دعوت ديتے ہيں- کيا يہ بري چيزيں ہيں؟ يہ تو مسلمان خاتون کے وقار کي ضمانت ہے، يہ خاتون کے عز و شرف کي بات ہے- جو لوگ خاتون کو اس انداز کے ميک اپ کي ترغيب دلاتے ہيں کہ گلي کوچے کے لوگ اسے ہوسناک نظروں سے ديکھيں، انہيں اپنے اس نظرئے کا دفاع کرنا چاہئے کہ انہوں نے خاتون کو اتنا کيوں گرا ديا ہے اور اس کي اس انداز سے تذليل کيوں کر رہے ہيں؟! ان کو اس کا جواب دينا چاہئے- ہماري ثقافت تو ايسي ثقافت ہے جسے مغرب کے بھي با شعور افراد اور اچھے انسان پسند کرتے ہيں اور اسي انداز سے زندگي گزارتے ہيں- وہاں بھي باعفت و پاکيزہ صفت خواتين اور وہ خاتونيں جو اپني شخصيت کو اہميت ديتي ہيں کبھي بھي غيروں کي ہوسناک نگاہوں کي تسکين کا ذريعہ بننا پسند نہيں کرتيں-
مغربي ثقافت کٹہرے ميں
خاتون کے مسئلے ميں مغربي ثقافت کا سختي سے مقابلہ کرنا چاہئے- يہ ايک واجب عمل کا درجہ رکھتا ہے- مغرب خاتونوں کي توہين و تذليل کر رہا ہے- خاتون کو اس کے مقام و مرتبے سے نيچے گرا رہا ہے- ان کي يہ بات سراسر جھوٹ ہے کہ " ہم تو دونوں صنفوں کو مساوي اور برابر سمجھتے ہيں" ہرگز ايسا نہيں ہے- يہ ايک طرح کا فريب اور سياسي و ثقافتي حربہ ہے- اس طرز عمل کے ذريعے خاتون کے ساتھ دھوکہ کيا جا رہا ہے، خيانت کي جا رہي ہے- اسلام کا کہنا ہے کہ خاتون مناسب لباس اور حجاب کے ذريعے اپنے وقار اور اپنے عز و شرف کي حفاظت کرتي ہے، خود کو اس (گھٹيہ اور پست) منزل سے بلند تر کرتي ہے جہاں دنيا کے بے راہرو مرد اسے پہنچانا چاہتے ہيں، يہ بے راہرو مرد ہر زمانے اور ہر علاقے ميں پائے جاتے رہے ہيں- قرآن ميں خاتونوں سے کہا گيا ہے کہ " فلا تخضعن بالقول" خضوع نہ کرو- خضوع کرنے کا مسئلہ ہے- مرد کے سلسلے ميں خاتون کا انداز خاضعانہ اور خاکسارانہ نہيں ہونا چاہئے- مرد اور خاتون کے اندر فطري اور قدرتي امور جو ہيں وہ اپني جگہ، اس ميں کوئي حرج نہيں ہے- مرد کے مقابلے ميں خاتون کي خاکساري اور حقارت آج مغرب ميں باقاعدہ ديکھي جا سکتي ہے- خاتون کو پست اور حقير بنانا دينا چاہتے ہيں- ويسے وہ يہ کام کر چکے ہيں، ايسا نہيں ہے کہ اب اسے حقارت ميں مبتلا کرنے جا رہے ہيں- اس خاص روش کے تحت آمد و رفت ميں خاتون کو مرد کے آگے کر ديا جاتا ہے اور يہ اصرار ہوتا ہے کہ خاتون، مرد سے آگے چلے ليکن يہ تو ظاہري صورت ہے، حقيقت اور باطن اس کے بالکل بر عکس ہے- بڑي حيرت ناک بات ہے کہ خاتونوں کے سلسلے ميں اپنے ان بڑے بڑے دعوğ کے باوجود ان تمام رياکارانہ اور جھوٹے تکلفات کے باوجود، جو عزت افزائي اور توقير کے نام پر انجام پاتے ہيں جو در حقيقت توہين آميز حرکتيں ہوتي ہيں، گھروں کے اندر شوہر اور بيوي کے تعلقات اور روابط کا وہ عالم ہے کہ خدا کي پناہ! يہ باتيں سن کر اور اس حقيقت سے آگاہ ہوکر انسان ايران کے قديم رجعت پسند خاندانوں کے زن و شوہر کے روابط کو ياد کرنے لگتا ہے- خاتون کي پٹائي، مار مار کر اس کے جسم کو سياہ کر دينا، کسي معمولي سي بات پر خاتون کو قتل کر ڈالنا، يہ سب مغرب ميں معمول کي باتيں بن چکي ہيں-
خامنہ اي ڈاٹ آئي آر
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
مساوات کے معني ميں غلط فہمي نہ ہو (دوسرا حصّہ)