عورت اور ترقي (چوتها حصّہ)
آزادي نسواں اور ويلفيئرسٹيٹ
تحريک آزادي نسواں اور مساوي حقوق کے فتنہ نے امريکہ، يورپ اور بالخصوص سکنڈے نيويا کے ممالک کي فلاحي رياست کو بري طرح متاثر کيا ہے- 1950ء کے عشرے ميں ان ممالک ميں جس طرح رياست کے وسيع فلا حي منصوبے سامنے آئے تھے، ان ميں بتدريج اضافہ ہوتا گيا- 1990ء کے بعد سے يہ صورت ہوگئي ہے کہ برطانيہ، ناروے، سويڈن وغيرہ ويلفيئر پر اٹھنے والے اخراجات ميں مسلسل کمي کر رہے ہيں کيونکہ ان اخراجات کي وجہ سے ان کے بجٹ خسارے ميں جارہے ہيں- يہ واضح کر دينا ضروري ہے کہ ان ممالک کے فلاحي اخراجات کا بيشتر حصہ عورتوں پر خرچ ہوتا ہے- سکنڈے نيويا کے ممالک ميں فلاحي اخراجات کي سب سے بڑي مد بچوں کے Day Careمراکز کا قيام، اور بے نکاحي ماؤ ں کي مالي امداد کے متعلق ہے- ان ترقي يافتہ ممالک ميں علاج و صحت عامہ کي بہتر سہوليات کي وجہ سے شہريوں کي اَوسط عمر ميں اضافہ ہوا ہے جس کي وجہ سے پنشنرزکي تعداد ميں ہوش ربا اضافہ ہوگيا ہے-
چونکہ عورتوں کي اَوسط عمر ميں اضافہ مردوں کي نسبت زيادہ ہوا ہے، اسي لئے پنشن پر اٹھنے والے اخراجات کا زيادہ حصہ بھي عورتوں پر ہي خرچ ہوتا ہے- ان معاشروں ميں جنسي بے راہروي کا تناسب خطرناک حد تک زيادہ ہے، جس نے مردوں کے مقابلے ميں عورتوں کي صحت پر زيادہ منفي اثرات مرتب کئے ہيں- اسقاط حمل اور مانع حمل ادويات سے عورتوں کي صحت متاثر ہوئي ہے، مزيد برآں زچگي کے دوران بھي رياست فلاحي ضرورتوں کي کفالت کرتي ہے- لائف انشورنس کے لئے رياست کو عورتوں پر نسبتاً زيادہ خرچ برداشت کرنا پڑتے ہيں- ايک محتاط اندازے کے مطابق سکنڈے نيويا ميں عورتوں پر اٹھنے والے مجموعي اخراجات کا حجم قومي ترقي ميں ان کے شراکتي حصہ سے کہيں زيادہ ہے- ورکنگ ويمن اپني آمدني کے علاوہ مردوں کي آمدني کا بھي خاصا حصہ خرچ کر ڈالتي ہيں- ان کي آمدني کا زيادہ تر حصہ کسي تعميري کام ميں لگنے کي بجائے بناؤ سنگھار اور نمودونمائش پرہي خرچ ہوتا ہے- اکانومسٹ کے سروے کے مطابق سکنڈے نيويا ميں سنہري دور کا خاتمہ ہونے کو ہے-
علامہ اقبال نے آج سے ستر برس قبل يورپ کے متعلق کہا تھا :
يہي ہے فرنگي معاشرے کا کمال مرد بے کار و زَن تہي آغوش
" مرد بے کار پھر رہے ہيں اور عورتوں کي گود خالي ہے کيونکہ وہ ماں بننے کيلئے آمادہ نہيں ہيں "
يہ صورتحال پہلے سے کہيں زيادہ واضح ہو کر ہمارے سامنے آئي ہے- 1997ء ميں 'اکانومسٹ' نے 'عورت اور کام' کے عنوان سے مفصل سروے شائع کيا تھا- اس سروے ميں امريکہ کے مختلف شہروں کے متعلق عورتوں کي ملازمت کے اَعدادوشمار ديئے گئے تھے- اس سروے ميں يہ نتيجہ اَخذ کيا گيا تھاکہ گذشتہ تين برسوں ميں جو نئي آسامياں نکلي ہيں، ان کا تعلق سروس سيکٹر سے ہے جن ميں زيادہ تر عورتوں کو ملازمتيں ملي ہيں- اس سروے کے مطابق ملازم عورتوں کي تعداد بڑھنے کي وجہ سے مردوں کي بے روزگاري ميں خطرناک اضافہ ہوگياہے- عورتوں کے متعلق يہ دلچسپ صورت بھي بيان کي گئي تھي کہ وہ دفتروں ميں کام کے لئے صبح سويرے نکل کھڑي ہوتي ہيں اور ان کي عدم موجودگي ميں ان کے خاوند بچوں کي ديکھ بھال کے فرائض انجام ديتے ہيں- اسي سروے ميں ايک تصوير شائع ہوئي تھي جس ميں گھر کي دہليز پر ايک عورت اپنا بچہ اپنے خاوند کے حوالے کر رہي ہے اور خود اس دہليز کے باہر قدم رکھ رہي ہے- اس سروے ميں ايک اور بات بھي قابل ذکر تھي کہ جس محلہ کي عورتيں کام کو سدھار جاتي ہيں تو پيچھے ان کے مرد گھر پر بيٹھے مکھياں مارتے رہتے ہيں اور اس محلہ کے بچوں ميں جرائم کا تناسب بڑھ گيا ہے- کيونکہ جس طرح مائيں بچوں کي نقل و حرکت پر نگاہ رکھتي ہيں، مرد وہ توجہ نہيں دے پاتے- مختصراً يہ کہ اگر عورتوں کي ملازمت کے نتيجے ميں مردوں ميں بے روزگاري پھيلتي ہے، تو يہ کسي بھي ملک کي مجموعي ترقي پر منفي اثرات مرتب کرے گي- يہ ايک مسلمہ حقيقت ہے کہ ايک ملک کي آبادي سو فيصد تعليم يافتہ تو ہوسکتي ہے ليکن سو فيصد تعليم يافتہ لوگوں کو روزگار مہيا کرنا ممکن نہيں ہے- اگر تمام تعليم يافتہ خواتين و حضرات اپنا مقصد تعليم حصول ملازمت بنا ليں، تو ان کي اچھي خاصي تعداد کو بے روزگار رہنا پڑے گا- اس کے مقابلے ميں اگر خواتين تعليم کو حاصل کريں، مگر اپنے گھر کے نظم و نسق اور بچوں کي پيدائش و نگہداشت سے روگرداني نہ کريں، گھر سے باہر کے معاملات مردوں کے لئے چھوڑ ديں، تو اس صورت ميں اس قوم کا خانداني شيرازہ بھي قائم رہے گا اور پڑھے لکھے افراد ميں ملازمت کا توازن بھي متاثر نہيں ہوگا- عورتوں کي ملازمتوں ميں برابري پر زور دينے کي بجائے اگر مردوں کي تنخواہوں ميں خاطر خواہ اضافہ کر ديا جائے تو يہ معاملہ پہلے سے کہيں بہتر ہوگا-
تحرير : محمد عطاء اللہ صديقي
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں :
ميرا شوہر ناراض کيوں ہوتا ہے ؟ (دوسرا حصّہ)
ميرا شوہر ناراض کيوں ہوتا ہے ؟
آزادي نسواں
اسلام کي نظرميں عورت کي اہميّت
شوہر کروں يا خود مختار رہوں ؟