اسلام ميں عورت کا حق وراثت ( حصّہ چہارم )
ميراث ميں مرد کا حصہ عورت کے دو برابر کيوں ہے؟
يہ درست ہے کہ ميراث ميں مرد کا حصہ عورت کے دو برابر ہے ، ليکن اگر غور و فکر کريں تو معلوم ہوگا کہ عورتوں کا حصہ مردوں کے دو برابر ہے! اور يہ اس وجہ سے ہے کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق کي حمايت کي ہے- اسلام ميں عورتوں کو مرد کي نسبت زيادہ حقوق حاصل ہيں - مرد پر بہت ساري ذمہ دارياں ہوتي ہيں جبکہ عورت پر گھر سے باہر کي ذمہ دارياں نہيں ہوتي ہيں -
اسلام نے مرد کے کاندھوں پر ايسي ذمہ داري رکھي ہے جس سے اس کي در آمد کا آدھا حصہ عورتوں پر خرچ ہوتا ہے، جبکہ عورتوں کے ذمہ کوئي خرچ نہيں ہے،چنا نچہ ايک شوہر پر واجب ہے کہ اپني زوجہ کو ؛ مکان، لباس، کھانا اور دوسري چيزوں کا خرچ ادا کرے، اور اپنے بچوں کا خرچ بھي اسي کي گردن پر ہے، جبکہ عورتوں پر کسي طرح کا کوئي خرچ نہيں ہے يہاں تک کہ اپنا ذاتي خرچ بھي اس کے ذمہ نہيں ہے، لہٰذا ايک عورت ميراث سے اپنا پورا حصہ بچا کر بينک ميں رکھ سکتي ہے، جبکہ مرد اپنے حصہ کو بيوي بچوں پر خرچ کرتا ہے، جس کا نتيجہ يہ ہوگا کہ مرد کي آمدني کا آدھا حصہ اہل و عيال پر خرچ ہوگا، اور آدھا اس کے لئے باقي رہے گا، جبکہ عورت کا حصہ اسي طرح محفوظ رہے گا-
يہ مسئلہ وا ضح ہو نے کے لئے اس مثال پر توجہ کريں: فرض کريں کہ پوري دنيا کا مال و دولت 30 / ارب روپيہ ہے، جو ميراث کے عنوان سے مردووں اور عورتوں ميں تقسيم ہونا ہے، تو اس ميں 20/ ارب مردوں کا اور 10/ ارب عورتوں کا حصہ ہوگا، ليکن عورتيں عام طور پر شادي کرتي ہيں اور ان کي زندگي کا خرچ مردوں کے ذمہ ہوتا ہے، تو اس صورت ميں عورتيں اپنے 10/ ارب کو بينک ميں جمع کر سکتي ہيں، اور عملي طور پر مردوں کے حصہ ميں شريک ہوتي ہيں، کيونکہ خود ان پر اور بچوں پر بھي مرد ہي کا حصہ خرچ ہوگا- اس بنا پر حقيقت ميں مردوں کا آدھا حصہ يعني 10/ ارب عورتوں پر خرچ ہوگا، اور وہ دس ارب جو ان کے پاس محفوظ ہے سب ملاکر 20/ ارب (يعني دو تہائي) عو رتوں کے اختيار ميں ہوگا، جبکہ عملي طور پر مردوں کے خرچ کے لئے صرف دس ارب ہي باقي رہے گا-
نتيجہ يہ ہوا کہ عورتوں کا حقيقي خرچ اور فائدہ کے لحاظ سے مردوں کے دو برابر ہے، اور يہ فرق اس وجہ سے ہے کہ ان کے يہاں کاروبار کرنے کي قدرت کم پائي جاتي ہے، اور يہ ايک طرح سے منطقي اور عادلانہ حمايت ہے جس پر اسلام نے عورتوں کے لئے توجہ دي ہے، حقيقت ميں ان کا حصہ زيادہ رکھا ہے، اگرچہ ظاہري طور پر ان کا حصہ مردوں سے آدھا رکھا ہے-
اسلامي روايات کے پيش نظر يہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ سوال پيغمبر اکرم (ص) کے زمانہ سے لوگوں کے ذہن ميں موجود تھا جس کي بنا پر ديني رہبروں سے يہ سوال ہوتا رہا ہے، اور ائمہ معصومين عليہم السلام کي طرف سے اس کا جواب ديا گيا ہے جن ميں سے اکثر کا مضمون ايک ہي ہے، اور وہ جواب يہ ہے: ”خداوندعالم نے زندگي کا خرچ اور مہر مرد کے ذمہ رکھا ہے، اسي وجہ سے ان کا حصہ زيادہ قرار ديا ہے”-
کتاب ”معاني الاخبار” ميں حضرت امام رضا عليہ السلام سے منقول ہے کہ اس سوال کے جواب ميں آپ نے فرمايا: ”ميراث ميں عورتوں کا حصہ مردوں کے حصہ سے آدھا اس وجہ سے رکھا گيا ہے کہ عورت جب شادي کرتي ہے تو وہ مہر ليتي ہے اور مرد ديتا ہے، اس کے علاوہ بيوي کا خرچ شوہر پر ہے، جبکہ عورت خود اپني اور شوہر کي زندگي کے خرچ کے سلسلہ ميں کوئي ذمہ داري نہيں رکھتي”-
شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں :
شريک حيات کے حقوق ( حصّہ دوّم )
خواتين کا اسلامي تشخص اور اُس کے تقاضے
خواتين پر مغرب کا ظلم اور خيانت
عورت کا مقام و مرتبہ ( حصّہ چهارم)
عورت کا مقام و مرتبہ (تيسرا حصّہ)