سبّ صحابہ
جہاں تک صحابہ کے سبّ و شتم اور ان کے خلاف دشنام طرازي کا تعلق ہے تو شيعہ علماء اور اہل دانش نے اس متنازعہ اور حساس مسئلے کي مفصل وضاحتيں کي ہيں اور مسلسل کہتے آئے ہيں کہ: «ہماري ثقافت اور ادبيات ميں سبّ اور دشنام کي گنجائش نہيں ہے؛ امير المؤمنين علي (ع) نے بھي اس عمل سے نہي فرمائي ہے. شريف رضي (رہ) نے نہج البلاغہ ميں علي (ع) کا يہ کلام ثبت کيا ہے کہ «إِنِّي أََكْرَهُ لَكُمْ أََنْ تَكُونُوا سَبّابِينَ» «ميں پسند نہيں کرتا کہ تم گالياں دينے والوں ميں سے ہوجاؤ» البتہ بعض حلقوں ميں ايسا ضرور ہوتا ہے اگرچہ بعض سني حلقوں ميں اس سے بھي زيادہ بھونڈا عمل ہوتا ہے اور وہ اہل تشيع اور شيعہ علماء کي تکفير کا عمل ہے؛ وہ علماء جو خدا کي وحدانيت اور قرآن کے حامل اور وحدت و يگانگت کے داعي ہيں!
«معاويہ» اور بني اميہ نے دسيوں سال تک اس سے کہيں زيادہ فعل قبيح رائج رکھا وہ يوں کہ معاويہ نے اپنے واليوں اور کارگزاروں کو باقاعدہ مکتوب ہدايات بھيج کر منبروں پر علي (ع) کا سبّ رائج کيا اور اموي خلفاء نے (عمر بن عبدالعزيز کے دور کو چھوڑ کر) اپنے پوري دور سلطنت ميں اس بھونڈے عمل کو جاري رکھا... اور اس زخم کا اثر صدياں گذرنے کے باوجود باقي ہے.
جي ہاں! ہم دشمنان آل محمد (ص) سے بيزاري کا اعلان کرتے ہيں اور ان لوگوں سے بھي جو آل محمد (ص) کے خلاف لڑے؛ انہيں قتل کيا اور انہيں گھربار چھوڑنے اور بےخانمان ہونے پر مجبور کيا. کيا مسلمانوں کے کسي بھي عالم دين ميں اتني قوت ہے کہ ہميں اس عمل سے منع کرے حالانکہ رسول اللہ (ص) نے اعلانيہ طور پر اور ايک مرتبہ سے زيادہ ايسے افراد سے بيزاري کا اعلان کيا ہے اور ان پر لعنت بھيجي ہے؟.
شعائر حسيني
آخر ميں ايک مسئلے کي طرف اشارہ ضروري سمجھتا ہوں جس کے ساتھ پيروان اہل بيت (ع) انس اور الفت رکھتے ہيں اور وہ نسل در نسل انہيں ورثے ميں ملتا ہے؛ اور وہ مسئلہ چودہ صدياں گذرنے کے باوجود امام حسين (ع) کي شہادت کے دن کي تکريم اور امام (ع) کي عزاداري کي مجالس برپا کرنے سے متعلق ہے جو ہر سال برپا ہوتي ہيں.
شيخ قرضاوي نے اہل تشيع کے اس عمل کو بھي بدعت قرار ديا ہے!.
ميں ان سے پوچھتا ہوں کہ: آپ اہل تشيع کو حسيني مجالس برپا کرنے پر کوستے ہيں؟ کيا شريعت ميں ايسي کوئي دليل ہے جو اس عمل يا اس عمل کي مانند کسي عمل کو رد يا منع کرتي ہو اور وہ کيا وہ دليل آپ کو معلوم ہے اور ہم اس سے بےاطلاع ہيں؟!!
بےشک رسول اللہ (ص) ايک بار سے زيادہ امام حسين (ع) کے لئے روئے ہيں اور جبرئيل نے آپ کو تعزيت پيش کي ہے [جبکہ امام حسين (ع) زندہ اور نوعمر تھے] ... اور رسو اللہ (ص) نے ہي مسلمانوں کو امام حسين (ع) کي شہادت کي خبر دي اور آپ (ع) کے قاتلوں پر لعنت بھيجي. يہ روايت معتبر شيعہ اور سني منابع اور حافظان حديث نے رسول اللہ (ص) سے نقل کي ہے.
اس حديث کے سني منابع مندرجہ ذيل ہيں:
«حاكم نيشابوري» نے مستدرك الصحيحين ميں، «امام احمد» نے مسند ميں، «بيہقي» نے دلائل النبوة، ميں «خطيب بغدادي» نے تاريخ بغداد ميں، «ابن عساكر» نے تاريخ دمشق ميں، «حافظ محب طبري» نے ذخائر العقبي ميں، «حافظ ابوالمؤيد خوارزمي» نے مقتل الحسين (ع) ميں، «دارقطني» نے مسند ميں، «ابن صباغ مالكي» نے الفصول المہمة ميں، «ابن حجر مکي» نے الصواعق المحرقہ ميں، «ابن الجوزي» نے منتظم ميں اور ان کي بيتي نے تذكرة الخواص ميں، «ابن كثير» اور «ابن اثير» نے اپني تاريخوں ميں، «حافظ زرندي» نے نظم الدرر ميں، «حافظ ابوالقاسم طبراني» نے المعجم الكبير ميں، «حافظ قسطلاني» نے المواہب ميں، «متقي ہندي» نے كنزالعمال ميں اور ديگر بےشمار سني حفاظ حديث نے ديگر منابع اور کتب ميں اس حديث کو نقل کيا ہے مگر ان کا ذکر کرنے کي نہ تو فرصت ہے اور نہ ہي اس مختصر ميں انہيں ذکر کرنے کا امکان ہے.
يہ حديثيں شيعہ منابع ميں سني منابع کي نسبت کئي گنا زيادہ اسناد و ذرائع سے نقل ہوئي ہيں مگر يہاں ميري کوشش ان سب کا احاطہ کرنا نہيں ہے کيونکہ نہ يہ مقام اس امر کے لئے مناسب ہے اور نہ ہي اس مکتوب ميں اس کي گنجائش ہے.
ميں کہتا ہوں کہ: قطعي طور پر جبرائيل (ع) نے امام حسين (ع) کي شہادت کي خبر رسول اللہ (ص) کو دي ہے اور آپ (ص) نے بھي يہ خبر امام حسين(ع) کے والد علي (ع) اور والدہ حضرت فاطمہ (س) اور ام المؤمنين ام ايمن اور [ام المؤمنين ام سلمہ] اور مسلمانوں کو پہنچائي ہے نيز آنحضور (ثص) ايک بار سے زيادہ مختلف مقامات پر امام حسين (ع) کے لئے روئے ہيں.
پس جناب شيخ قرضاوي! وہ کونسي چيز ہے جو امام حسين (ع) کي شہادت کے ايام ميں شيعيان اہل بيت(ع) کو آپ (ع) کے لئے رونے اور نوحہ خواني اور عزا داري کي مجالس برپا کرنے سے روکتي ہے؟ حالانکہ ان اعمال کا عملي نمونہ رسول اللہ (ص) کي ذات بابرکات ہے.
اہل بيت (ع) کي حديثوں ميں امام حسين (ع) کي شہادت کي برسي کے دوران مجالس عزاداري برپا کرنے اور آپ (ع) کے لئے آہ و بکاء کرنے پر بہت زيادہ تأكيد ہوئي ہے اور ہم کلام اہل بيت (ع) سے تمسک کرتے ہيں اور ان احاديث کو حجت سمجھتے ہيں جيسا کہ ابتدا ميں ذکر ہؤا.
شايد عزاداري کي ايک حکمت يہ ہو کہ سنہ 61 ہجري کے واقعات ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت و استقامت کي تربيت کے حامل ہيں. بنو اميہ نے بھي اور ان کے بعد آن والے بنوعباس نے بھي اس ثقافت کو حديث اور فقہ کي کتابوں سے مٹانے کي بہتيري کوشش کي اور شيعي فرہنگ کو ستمگر بادشاہوں کے سامنے نسليم محض اور ان کي غيرمشروط اطاعت پر مبني ثقافت ميں تبديل کرديں اور اس ضمن ميں انہوں نے بعض حديثيں بھي رسول اللہ (ص) سے نقل کيں اور اس ميں شک نہيں ہے کہ انہوں نے ان حديثوں کو رسول اللہ (ص) سے منسوب کيا ہے اور ان کي بنياد پر ايک فقہ کي بنياد رکھي ہے جس کا اسلامي فقہ کي سے کوئي جوڑ نہيں ہے. ميري رائے ميں ان احاديث ميں امر بالمعروف اور نہي عن المنکر اور ظالموں کي اطاعت گذاري کي حرمت کے حامل محکمات قرآني کے مقابلے کي سکت نہيں ہے اور امر بالمعروف اور نہي عن المنکر اور ظالموں کے خلاف جدوجہد کي ضرورت پر مبني رسول اللہ (ص) کي احاديث صحيحہ کے سامنے بےاعتبار ہيں.
ان سب قرآن و سنت کي ان احکام کے برعکس بنو اميہ اور بنوعباس کے ادوار ميں ظالموں کي اطاعت، ان کے سامنے سرتسليم خم کئے رکھنا، ان کي پذيرائي کرنا اور ان کے ہمراہ نماز جمعہ ميں شرکت کرنا اور ان کي عدم اطاعت کي تحريم اس عصر کي رائج فقہ و تہذيب شمار ہوتي ہے اور يہ فقہ و ثقافت آج بھي جاري ہے.
ميرے خيال ميں امام حسين کي ياد تازہ رکھنے کے رازوں ميں سے ايک راز يہ ہو کہ نينوا کے واقعے ميں مضمر ثقافت و تعليم مذکورہ بالا ثقافت تسليم سے بالکل مختلف ہے؛ يہ ثقافت امر بالمعروف اور نہي عن المنکر اور ظالموں کي نافرماني اور ان کے خلاف جدوجہد کي ثقافت ہے اور اہل بيت عليہم السلام مسلمانوں کے درميان اہل ستم کي سامنے سر تسليم خم کرنے اور ان کي ظالمانہ فرمانروائي کو تسليم کرکے ان کے روبرو کرنش کرنے کے رجحان کي مد مقابل حسيني ثقافت کي ترويج کے لئے کوشاں ہيں.
البتہ امام حسين (ع) کي عزاداري ميں مٹھي بھر افراد محدود سطح پر بعض غيرشائستہ اعمال و افعال کا ارتکاب کرتے ہيں اور علمائے شيعہ نہ صرف ان اعمال کو ناپسند کرتے ہيں بلکہ لوگوں کو ان اعمال سے منع بھي کرتے ہيں اور شعائر حسيني کو ان افعال و اعمال سے پاک رکھنے کے لئے کوشش کرتے ہيں مگر اس کے باوجود يہ جاننا ضروري ہے کہ ان رويوں کا کھاتہ شعائر حسيني کف احياء اور امام حسين (ع) کي عزاداري کي مجالس کے انعقاد کي کھاتے سے الگ ہے اور ان دو کے درميان کوئي تعلق نہيں ہے.
قرآن ڈاٹ ال شيعہ
متعلقہ تحريريں:
بدعت کيا ہے؟ اور فرقہ ناجيہ کون لوگ ہيں ؟
صفات شيعه ( حصّہ ششم )
شيعوں کے صفات ( حصّہ پنجم )
شيعوں کے صفات ( حصّہ چہارم )
شيعوں کے صفات ( حصّہ سوّم)