تابوت كيا ہے؟
''تابوت''كا لغوى معنى ہے وہ صندوق جسے لكڑى سے بنايا جائے_جنازے كے صندوق كو بھى اسى لئے تابوت كہتے ہيں_ ليكن تابوت مردوں سے مخصوص نہيں بلكہ ہر قسم كے لكڑى كے صندوق كے لئے مستعمل ہے_
بنى اسرائيل كا تابوت يا صندوق عہد كيا تھا،وہ كس كے ہاتھ سے بنا تھااوراس ميں كيا چيز يں موجود تھيں_اس سلسلے ميں ہمارى روايات و تفاسير ميں اوراسى طرح''عہد قديم'' (توريت) ميں بہت كچھ كہا گيا ہے، سب سے زيادہ واضح چيز جو احاديث اہل بيت (ع) اور بعض مفسرين مثلاً ابن عباس سے منقول ہے يہ كہ يہ'' تابوت'' وہى صندوق تھا جس ميں حضرت موسى عليہ السلام كى والدہ نے انہيں لپٹاكر دريا ميں پھينكا تھا_ فرعون كے كارندوں نے اسے دريا ميں سے پكڑ ليا_ حضرت موسى عليہ السلام كو اس ميں سے نكال ليا گيا اور صندوق جوں كا توں فرعون كے پاس محفوظ كرليا گيا_ بعد ازاں وہ بنى اسرائيل كے ہاتھ آيا تو وہ اس عجيب صندوق كو محترم شماركرنے لگے اور اسے متبرك سمجھنے لگے''_
حضرت موسى عليہ السلام نے اپنى زندگى كے آخرى دنو ں ميں وہ الواح مقدسہ جن پر احكام خدا لكھے ہوئے تھے اس ميں ركھ ديں_ نيز اپنى زرہ اور دوسرى يادگار چيزوں كا بھى اس ميں اضافہ كرديا_ صندوق آپ (ع) نے اپنے وصى حضرت ''يوشع (ع) بن نوع'' كے سپرد كرديا_ يوں صندوق كى اہميت بنى اسرائيل كى نگاہ ميں اور بڑھ گئي_ لہذا وہ دشمنوں كے ساتھ جنگوں ميں اسے ہمراہ لے جاتے اور اس كا ان پر نفسياتى اور روحانى طور پر بہت اثر ہوتا_ اسى لئے كہا جاتا ہے كہ جب تك وہ دل انگيز صندوق ان مقدس چيزوں كے سميت ان كے ساتھ رہا وہ سر بلند رہے اور آبرومندانہ زندگى بسر كرتے رہے ليكن رفتہ رفتہ ان كى دينى بنياديں كمزور پڑگئيں اور دشمن ان پر غلبہ حاصل كرتے رہے_ وہ صندوق بھى ان سے چھن گيا_
جيسا كہ قرآن كہتاہے: ''صندوق عہد تمہارى طرف آئے گا _ (وہى صندوق كہ) جس ميں آل موسى اور آل ہارون كى يادگاريں ہيں جب كہ فرشتوں نے اسے اٹھا ركھا ہوگا''_اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ''صندوق عہد وہ ايسے تبركات تھے جو حوادث كے موقع پر بنى اسرائيل كے لئے اطمينان بخش تھے اور معنوى و نفسياتى اثرات كے حامل تھے_دوسرى بات يہ ہے كہ بعد ازاں حضرت موسى عليہ السلام اور حضرت ہارون عليہ السلام كے خاندان كى كچھ يادگاريں بھى اس ميں ركھ دى گئي تھيں''_
حضرت اشموئيل (ع) نے بنى اسرائيل كو يہ بات دل نشين كرائي كہ صندوق عہد دوبارہ انہيں مل جائے گا اور جو سكون اور اطمينان وہ كھو بيٹھے ہيں دوبارہ حاصل كرليں گے_معنوى و تاريخى پہلو كے حامل اس صندوق كى اہميت در اصل بنى اسرائيل كے لئے ايك پرچم اور شعار سے بڑھ كر تھي_ اسے ديكھ كے ان كى نظروں ميں اپنى عظمت رفتہ كى ياد تازہ ہو جاتى تھي_
حضرت اشموئيل (ع) نے خبر دى كہ وہ صندوق لوٹ آئے گافطرى امر ہے كہ يہ بنى اسرائيل كے لئے ايك بہت بڑى بشارت تھي_
فرشتے صندوق عہد كيسے لائے؟
جيسا كہ قرآن ميں بيان ہوا ہے كہ ''فرشتے اس صندوق كو اٹھائے ہوئے ہيں''يہاں پر سوال يہ ہوتا ہے كہ فرشتے صندوق عہد كو كيسے لائے؟اس سلسلے ميں مفسرين نے مختلف باتيں كى ہيں_ ان ميں سے زيادہ واضح تواريخ كے حوالے سے يہ ہے كہ جب صندوق عہد فلسطين كے بت پرستوں كے ہاتھ لگا اور وہ اسے اپنے بت خانے ميں لے گئے اس كے بعد وہ بہت سى مصيبتوں اور ابتلائوں كا شكار ہوگئے تو ان ميں سے بعض كہنے لگے كہ يہ سب كچھ صندوق عہد كے آثار ميں سے ہے، لہذا انہوں نے طے كرليا كہ اسے اپنے شہر اور علاقے سے باہر بھيج ديں گے_كوئي شخص اسے باہر لے جانے كو تيار نہ ہوا_مجبوراًدو بيل جوتے گئے اور صندوق عہد كو باندھ كر بيلوں كو بيابان ميں جاكر چھوڑا گيا_اتفاق سے يہ واقعہ ٹھيك اس وقت رونما ہوا جب طالوت كو بنى اسرائيل كا فرمانروا بنايا گيا_
خدا نے فرشتوں كوحكم ديا گيا كہ وہ ان دو بيلوں كو اشموئيل كے شہر كى طرف ہانك كرلے جائيں_بنى اسرائيل نے صندوق عہد كو ديكھا تو اسے طالوت كے خدا كى طرف سے مامور ہونے كى نشانى كے طور پر قبول كرليا_اس لئے ظاہراًتو دوبيل اسے شہر ميں لائے ليكن درحقيقت يہ كام خدائي فرشتوں كى وجہ سے انجام پذير ہوا اسى وجہ سے صندوق اٹھالانے كى نسبت فرشتوں كى طرف دى گئي ہے_اصولى طو پر فرشتہ اور ملك قرآن حكيم اور روايات ميں ايك وسيع مفہوم كا حامل ہے_اس مفہوم ميں روحانى عقل ركھنے والے موجودات كے علاوہ اس جہان كى مخفى قوتوں كا ايك سلسلہ بھى شامل ہے_
يہ دائود كون سے دائود تھے
اگر چہ قرآن ميں صراحت موجود نہيں كہ يہ دائود وہى پيغمبر ہيں جو حضرت سليمان(ع) كے والد گرامى ہيں ياكوئي اور شخص_ليكن اس قرآن سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ وہ مقام نبوت كے حامل ہوئے قرآن آگے چل كر يوں بيان كرتا ہے :
''خدانے اسے حكومت اور علم عطا كيا اور جو كچھ وہ چاہتا تھا اسے سكھايا ''_
ايسى تعبير عام طور سے انبياء كے متعلق ہى ہوتى ہے_
''اور ہم نے اسكى حكومت كو مضبوط كرديا اور اسے علم و دانش عطا كيا''_
اس سلسلہ كى ذيل ميں جو احاديث منقول ہيں ان سے بھى واضح ہوتاہے كہ يہ وہى مشہور پيغمبر حضرت دائود(ع) تھے_
قصص القرآن
منتخب از تفسير نمونه
تاليف : حضرت آيت الله العظمي مکارم شيرازي
مترجم : حجة الاسلام و المسلمين سيد صفدر حسين نجفى مرحوم
تنظيم فارسى: حجة الاسلام و المسلمين سير حسين حسينى
ترتيب و تنظيم اردو: اقبال حيدر حيدري
پبليشر: انصاريان پبليكيشنز - قم
متعلقہ تحریریں:
اصحاب فيل
اصحاب كہف كى زندگى كا اجمالى جائزہ
حضرت ابراہيم ،حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق (عليہم السلام)
حضرت ابراہيم ،حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق (عليہم السلام) ( حصّہ دوّم )
حضرت ابراہيم ،حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق (عليہم السلام) ( حصّہ سوّم )
حضرت ابراہيم ،حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق (عليہم السلام) ( حصّہ چهارم )
حضرت ابراہيم ،حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق (عليہم السلام) (حصّہ پنجم)
حضرت ابراہيم ،حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق (عليہم السلام) (حصّہ ششم)
حضرت ابراہيم ،حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق (عليہم السلام) (حصّہ هفتم)
حضرت ابراہيم ،حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق (عليہم السلام) (حصّہ هشتم)