• صارفین کی تعداد :
  • 3579
  • 11/9/2010
  • تاريخ :

اسلام میں تعلیم نسوان پر تاکید (حصّہ دوّم)

مسلمان خاتون

اسلامی شریعت کا ایک بنیادی قائدہ ہے کہ جب بھی کوئی حکم نازل ہوتا ہے تو اس کے لیے صیغہ مذکر استعمال ہوتا ہے لیکن اس میں صنف نازک بھی شامل ہوتی ہے۔ اگر اس حکم و اصول کو ترک کر دیاجائے تو نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ جیسے بنیادی ارکان سمیت بے شمار احکام شریعت کی پابندی خواتین پر نہیں رہتی۔ چونکہ ان احکام کے بیان کے وقت عموماً مذکر کا صیغہ ہی استعمال کیاگیاہے، لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جن آیات و احادیث کے ذریعے فرضیت و اہمیت علم مردوں کے لیے ثابت ہے، انہی کے ذریعے یہ حکم خواتین کے لیے بھی من و عن ثابت شدہ ہے۔

فرضیت علم کا براہ راست بیان بے شمار احادیث میں بھی آیا ہے۔ حضور نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا:

’’حصول علم تمام مسلمانوں پر(بلا تفریق مرد و زن) فرض ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، المقدمہ، ۱:۸۱، رقم: ۲۲۴)

اسی طرح ایک دوسرے موقع پرحضور نبی اکرم ا نے فرمایا: ’’علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے، بے شک علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ (ابن عبد البر، جامع بیان العلم، ۱: ۲۴، رقم: ۱۵) ایک اور مقام پر آپ ا فرمایا: ’’جو شخص طلب علم کے لئے کسی راستہ پر چلا، اﷲ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔‘‘

(صحیح مسلم، کتاب الذکر، ۴: ۲۰۷۴، رقم: ۲۶۹۹)

لہٰذا جب یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن سے حصول علم خواتین کے لیے بھی اسی طرح فرض ہے جیسے مردوں کے لیے تو اب اسوۂ رسول ا اور سیرت نبوی ا کی روشنی میں جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ حضور ا نے خود خواتین کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام فرمایا:

’’حضرت ابو سعید خدری ص سے روایت ہے کہ عورتیں حضور نبی اکرم ا کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئیں: آپ کی جانب مرد ہم سے آگے نکل گئے، لہٰذا ہمارے استفادہ کے لیے بھی ایک دن مقرر فرما دیجیے۔ آپ ا نے ان کے لئے ایک دن مقرر فرما دیا۔ اس دن آپ ا ان سے ملتے انہیں نصیحت فرماتے اور انہیں اﷲ تعالیٰ کے احکام بتاتے۔‘‘

 (صحیح بخاری، کتاب العلم، ۱: ۵۰، رقم: ۱۰۱)

ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ عالمہ، محدثہ اور فقیہہ تھیں۔ آپ سے کتب احادیث میں ۲۱۰٬۲ مروی احادیث ملتی ہیں۔ مردوں میں صرف حضرت ابو ہریرہ، حضرت عبد اﷲ بن عمر اور حضرت انس بن مالک ہی تعداد میں آپ سے زیادہ احادیث روایت کرنے والوں میں سے ہیں۔ اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ ضروری تقاضے پورے کرنے کی صورت میں عورتیں نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کو بھی پڑھا سکتی ہیں۔

’’حضرت عائشہ بنت طلحہ روایت کرتی ہیں: میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس رہتی تھیں، میرے پاس ہر شہر سے لوگ آتے (جو بغرض تعلیم سوالات کرتے تھے) اور بوڑھے لوگ بھی آتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ میں ان کی خادمہ ہوں۔ اور جو طالب علم نوجوان تھے وہ میرے ساتھ بہنوں جیسا برتاؤ کرتے تھے اور (میرے واسطہ سے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں) ہدایا پیش کرتے تھے۔ بہت سے مختلف شہروں سے مجھے بھی خط لکھتے تھے (تاکہ میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے معلوم کر کے جواب لکھ دوں)۔ میں عرض کرتی تھی: اے خالہ! فلاں کا خط آیا ہے اور اس کا ہدیہ ہے تو اس پر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی تھیں کہ اے بیٹا! اس کو جواب دے دو اور اس کے ہدیہ کا بدلہ بھی دے دو۔ اگر تمہارے پاس دینے کو کچھ نہیں تو مجھے بتا دینا میں دے دوں گی۔ چنانچہ وہ دے دیا کرتی تھیں (اور میں خط کے ساتھ بھیج دیتی تھی)۔‘‘

 (بخاری، الادب المفرد، ۱:۳۸۲، رقم: ۱۱۱۸)

بشکریہ : ڈاکٹر رحیق عباسی


متعلقہ تحریریں :

اہل مغرب کي ايک ظاہري خوبصورتي مگر درحقيقت؟!

خواتين کے بارے ميں اسلام کي واضح، جامع اور کامل نظر

خواتين سے متعلق روايات ميں ظالمانہ فکر و عمل سے مقابلہ

خواتين سے متعلق صحيح اور غلط نظريات

خواتين کے بارے ميں تين قسم کي گفتگو اوراُن کے اثرات

ماں کی عظمت میں شاعری

شوہر داري يعنى شوہر كى نگہداشت اور ديكھ بھال

ماں باپ كى ذمہ داري

لیڈی ہیلتھ ورکر کے مفید مشورے

بچوں کی بات سننے میں ہمیشہ پہل کریں اور انہیں اہمیت دیں