دوست اور دوستي کي اہميت
جہان بود و باش ميں قدم رکھنے سے ليکر دار فاني کو وداع کہنے تک انساني شخصيت کي تعمير و تشکيل ،اخلاقي و روحاني تربيت، ذہني شعور اور فکري ارتقاء، اطراف ميں موجود افراد سے وابستہ ہيں۔ يہ وابستگي کبھي والدين کي محبت و شفقت کے روپ ميں انسان کو جينے کا سليقہ سکھاتي ہے اور کبھي استاد کي کوشش و تربيت کے نتيجہ ميں آگے بڑھنے کا انداز بتاتي ہے۔ انساني شخصيت کي تعمير و تربيت ميں والدين اور اساتذہ کا کردار بنيادي نوعيت کا ہونے کے باوجود محدود وقت پر محيط ہوتا ہے اورا سکے مقابلے ميں ايک تعلق اور رشتہ ايسا بھي ہے جو ہوش کي وادي ميں قدم رکھتے ہي انسان کا ہاتھ ہميشہ کے لئے تھام ليتا ہے۔
جي ہاں !’’ دوست اور دوستي ايک ايسارشتہ ہے جو نسبي طور پر دور ہونے کے باوجود قريبي ترين افراد سے بھي قريب تر ہوتا ہے‘‘. يہي وجہ ہے کہ امير المومنين علیہ السلام دوستي کو قرابت داري و رشتہ داري قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں:
’’دوستي انتہائي مفيد رشتہ داري و قرابت ہے ‘‘
دوستي کي اہميت کو مزيد اجاگر کرنے کے لئے آ پ علیہ السلام فرماتے ہيں :’’رشتہ داري و قرابت، دوستي کے بغير بر قرار نہيں رہ سکتي جبکہ دوستي کے لئے رشتہ داري کاہونا ضروري نہيں ہے‘‘؟ حضرت امير المومنين علیہ السلام کے مذکورہ فرامين سے يہ بات عياں ہے کہ دنيا ميں انسان کا قريبي ترين ساتھي، دوست ہوتا ہے اور ظاہر سي بات ہے کہ جب کوئي شخص انسان کے انتہائي قريب ہوگا تو جہاں اس کے دکھ درد ميں شريک ہوگا وہاں بہت سے مفيد مشوروں کے ذريعہ ا س کي راہنمائي بھي کرے گا . جس کے نتيجہ ميں انسان بہت سي مشکلات اور پريشانيوں سے چھٹکارا پالے گا. اسي لئے مولائے کائنات دوستي کو نصف عقل قرار ديتے ہيں
جبکہ دوست اور دوستي کے فقدان کو غربت و تنہائي شمار کرتے ہيں
’’دوستوں کانہ ہونا غربت وتنہائي ہے ‘‘
اور غريب و تنہا در حقيقت وہ شخص ہے جس کا کوئي دوست نہ ہو۔
متعلقہ تحریریں:
نکاح کے چند بول کے ذريعے ؟
شادي کس لئے، مال و جمال کے لئے يا کمال کے لئے؟
شادي کي نعمت کا شکرانہ
شادي کي شرائط کمال
شادي کي برکتيں اور فوائد
وقت پر شادي = سنّت نبوي (ص)
شادي، اسلامي اقدار کا جلوہ
زندگي کا ہدف
لڑكیوں كی تربیت
اسلام میں شادی بیاہ