• صارفین کی تعداد :
  • 3141
  • 4/17/2010
  • تاريخ :

عورتوں کے حقوق اور آزادی کے نعرے (حصّہ دوّم)

خاتون

سرکاری و بین الاقوامی سرپرستی میں میڈیا جس طریقے سے خواتین کے کردار کی تذلیل اور ان کی حیثیت کو مسخ کررہا ہے۔ اس نے خواتین کے لیے ہرسطح پرناخوشگوار ماحول پیدا کردیا ہے۔ اس ضمن میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی محض یہ رپورٹ ہی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے کہ ”خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے پیچھے کمزور عدالتی نظام، کرپٹ پولیس یا مجرموں کی سرکاری و سماجی سرپرستی سے زیادہ اصل وجہ میڈیا کے ذریعے خواتین کی بے جانمود و نمائش اور ان کو”اشیائے تجارت“ کے طور پر پیش کیے جانے کی پالیسی ہی“۔ (سالانہ رپورٹ 2005 ء) اس رپورٹ سے با آسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خواتین کے ساتھ ہونے والے استحصال اور معاشرتی ناانصافیوں کی اہم وجہ میڈیا کی غیر اخلاقی پالیسی ہے اور اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ خواتین کے حقیقی مسائل، جن میں سب سے اہم عدم تحفظ کا احساس ہے، پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔ اگرچہ حکومتی سطح پر خواتین کی فلاح و بہبود کے ضمن میں بے شمار دعوے کیے جاتے رہے ہیں جن میں سرفہرست پارلیمنٹ میں خواتین کی موثر نمائندگی اور حقوق نسواں پر مبنی قوانین کی منظوری و نفاذ جیسے اقدامات شامل ہیں۔ موجودہ حکومت بھی خواتین کی ترقی کو اپنے منشور کا اہم جزو قرار دیتی ہے۔ توجہ طلب امر یہ کہ موجودہ پارلیمنٹ پہلی خاتون اسپیکر کے ساتھ ساتھ ملکی تاریخ میں اب تک خواتین کی سب سے زیادہ نمائندگی کرنے والی پارلیمنٹ ہے مگر اس کے باوجود ملک بھر میں خواتین کے خلاف جبر و تشدد کے واقعات میں روز بروز اضافہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

عافیہ صدیقی، تسلیم سولنگی اور ماریہ شاہ جیسے اندوہناک سانحات کے باوجود اس ضمن میں کسی قسم کی عدم پیشرفت نہ صرف موجودہ خواتین ارکان پارلیمنٹ کی کارکردگی پرسوالیہ نشان ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی پیدا ہوا ہے کہ حقوق نسواں کے قوانین اور پارلیمنٹ میں خواتین کی موجودگی جیسے اقدامات (جو در اصل ترقی نسواں کی مغربی تحریک سے مرعوبیت کے تحت عمل میں لائے گئے ہیں) محض نمائشی اور مصنوعی ہیں اور یہ خواتین کو ان کا بنیادی حق، یعنی معاشرتی احساس تحفظ، دینے میں بھی ممد و  معاون ثابت نہیں ہو سکے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مغرب کی تحریک برائے حقوق نسواں کے اثرات، جو پوری دنیا میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں، یہ حقیقت کھول دینے کے لیے کافی ہیں کہ یہ تحریک خواتین کو ان کا حقیقی معاشرتی مقام و مرتبہ دینے میں نہ صرف یہ کہ نا کام ہے بلکہ اس نے آج کی عورت سے اس کی اصل حیثیت چھین کر اسے بیچ چورا ہے میں لاکھڑا کیا ہے۔ پاکستان سمیت تمام تر اسلامی حکومتوں اور دیگر معاشرتی طبقات کو اس حقیقت کا ادراک کرلینا چاہیے کہ عورت کے اصل حقوق، شخصی آزادی، حیثیت و مرتبے اور عفت و عصمت کا حقیقی محافظ مغربی نظام نہیں بلکہ وہ اسلامی نظام ہے جس نے 14 سو سال قبل بھی عورت کا دامن حقیقی احساس تحفظ، امن و سکون اور دائمی راحتوں سے بھردیا تھا اور آج بھی یہی نظام عورت کو اس کا اصل مرتبہ اور حقوق دینے کی مکمل اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ حقوق نسواں کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات مغربی ایجنڈے کے تحت کرنے کے بجائے اسلامی اقدار و روایات سرفہرست رکھ کر کیے جائیں۔ سب سے پہلے قدم کے طور پر میڈیا کے ذریعے خواتین کے استحصال کی بیخ کنی ہو۔ تعلیم و صحت، وراثت اور حق ملکیت جیسے دیگر حقوق جو اسلامی شریعت نے عورت کو عطا کیے فی الواقع عورت کو یہ حقوق دے کر اس کی اہمیت کا احترام کیا جائے۔ محض اسی صورت میں خواتین کے ساتھ ہونے والی معاشرتی ناانصافیوں، زیادتیوں، سماجی تعصبات اور مشکلات کا حل ممکن ہے۔

                                                                                                                                                                ختم شد.

بشکریہ اسلام ٹائمز ڈاٹ اور آر جی


متعلقہ تحریں :

خواتین کے حقوق موجودہ دنیا کا ایک پیچیدہ مسئلہ

اسلامی نظام  حقوق نسواں کے تحفظ کا ضامن